ہے ۔
باایں ہمہ ائمہ اسلام کا ادب و احترام ، اور ان کے کمالات کا اعتراف حضرت کی تعلیم کا ایک جزولاینفک ہوگیاتھا، خود بھی ایسی ہی تقریر فرماتے اور صراحت سے ذہین نشین کراتے تھے کہ ’’ مذاہب مجتہدین حق مبین ہیں اور سب مستدل بالکتاب و السنۃ، ان کی تنقیص موجب بدبختی اور سوء ادب ، باعث خسران‘‘۔
محدثین میں امام بخاریؒ اور ائمہ مجتہدین میں حضرت امام اعظمؒ کے ساتھ خاص تعلق تھا، امام بخاری کے علوم اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھول دیئے تھے، امام ابو حنیفہ ؒ کے مذہب کے لئے حق تعالیٰ نے حضرت کو شرح صدر کردیا تھا، اسی کا اثر طلبہ پر پڑتا تھا،حضرت مولانا کا طرز تحدیث او رجمع بین اقوال الفقہاء و الاحادیث بالکل وہی تھا جو ہندوستان کے نامی گرامی خاندان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب (قدس سرہما) کا تھا، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے اقوال کو نہایت اعتبار اوراعتمادکے ساتھ نقل فرماتے ، اورنہایت ادب سے نام لیتے۔‘‘(حیات شیخ الہند/۳۲ـ-۳۶)
صحیح بخاری کے درس میں حضرت شیخ الہندکی محدثانہ، فقیہانہ اور محققانہ شان بہت نمایاں رہتی تھی، آپ کے شاگرد رشید حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رقم طراز ہیں :
’’سیدنا شیخ الہند کی ژرف نگاہی اور ان کے حکیمانہ نقطہ نظر کا سب سے زیادہ تجربہ اس وقت ہونے لگا، جب بخاری شریف شروع ہوئی، بخاری کے مہمات میں جیسا کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ اہم