تھی کہ سونا مشکل تھا، مستقل کراہ رہے تھے، ناقابل بیان کیفیت تھي، ہم سے حضرت کی یہ حالت برداشت نہیں ہورہی تھی، ہم نے ادب سے عرض کیا: حضرت! شریعت میں جان بچانے کے لئے حیلے کی تو اجازت ہے، جان بچانے کے لئے اگر آپ ان انگریزوں کے سامنے کوئی ذومعنی مبہم بات کہہ دیں تو کیا حرج ہے؟ یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ: ’’حسین احمد! تم مجھے کیا سمجھتے ہو؟ میں روحانی بیٹا ہوں حضرت بلال کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت خبیب کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت امام اعظم کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت امام مالک کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا، یہ لوگ میرے جسم سے جان تو نکال سکتے ہیں ، مگر میرے دل سے ایمان نہیں نکال سکتے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: خطبات ہند، از:حضرت مولانا ذوالفقار نقشبندی مدظلہم ۱؍۲۵۲-۲۵۳)
صحابی جلیل اور دشمنانِ اسلام کی طرف سے باربار آگ کے انگاروں پر لٹائے جانے کی سزا اور مشقت جھیلنے والے حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کی سنت ادا کرنے والے ان کے روحانی وارث وغلام حضرت شیخ الہند کی عزیمت اور موقف حق پر ثابت قدمی کا یہ ایک رنگ تھا، یہ ایک مثال تھی، ورنہ پوری حیاتِ شیخ الہند استقامت اور قربانیوں کے ایسے نمونوں سے لبریز ہے، اورامت کو نازک سے نازک حالات میں بھی جادۂ حق پر استقامت اور موقف حق سے سر مو بھی انحراف گوارا نہ کرنے کا پیغام عزیمت دے رہی ہے۔
خوف اور حساسیت
حیاتِ شیخ الہندؒ کا دوسرا قابل رشک وفخر پہلو سب کچھ کرتے ہوئے بھی کچھ نہ کرپانے کا احساس، ہر آن اپنی بے مائیگی اور بے بضاعتی کا تصور اور ہر لمحہ خوفِ الٰہی سے سرشاری اور