اپنے مجاہدات ومحنتوں کے ضائع ہونے اور رد کئے جانے کے تعلق سے مؤمنانہ فکر مندی اور متقیانہ حساسیت کا وہ جوہر ہے جو خاصانِ خدا کا ا متیاز ہوتا ہے۔
اس کا ایک نمونہ اسارتِ مالٹا کے دور کا یہ واقعہ ہے کہ ایک بار انگریزوں کی طرف سے حضرت کو پھانسی دئے جانے کا فیصلہ بھی سنایا گیا، حضرت کو اطلاع ہوئی تو زار وقطار رونے لگے، آپ کے شاگردوں کو آپ کے اس گریہ پر تعجب ہوا، عرض کیا: ’’یہ تو شہادت کا اعزاز ہے، آپ خوف زدہ کیوں ہیں ؟‘‘ فرمایا:
’’مجھے موت سے خوف نہیں ہے، مجھے تو اللہ کی شانِ بے نیازی رلارہی ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ بندے کی جان بھی لے لیتا ہے، اور یہ قربانی قبول بھی نہیں کرتا‘‘۔ (ایضاً: ۱؍۲۵۵)
استقامت وفداکاری کے جذبۂ بے پناہ کے پہلو بہ پہلو یہ فکر، یہ احساس اور یہ خوف حضرت شیخ الہند کا وہ روشن کردار ہے جو پوری ملت بطور خاص دینی وملی خدمت گذاروں کے لئے مشعل راہ اور لمحہ فکریہ ہے۔
امت کو قرآن سے جوڑنے اور اتحاد کی فکر
سیرتِ شیخ الہندؒ کا تیسرا بہت فکر انگیز اور سبق آموز پہلو ’’امت کو قرآن سے جوڑنے اور وحدت کی لڑی میں پرونے‘‘ کا وہ مبارک جذبہ ہے جو ان کے سینے میں موجزن تھا، مالٹا سے رہائی کے بعد ایک رات دارالعلوم دیوبند میں بعد عشاء علماء کے بڑے مجمع کے سامنے آپ نے اپنا یہی جذبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ، میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں ، تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان