کریں گے، حضرت کو یہ خبر پہنچی تو بے چین ہوگئے، اور واضح فرمایا کہ یہ مقاصد شرعیہ کے بالکل خلاف ہے، ہم مذہبی احکام میں ادنی تصرف اور ذراسی ترمیم کو بھی برداشت نہیں کرسکتے، خواہ وہ لوگ ہمارا ساتھ چھوڑدیں ، پھر اس کی صرف زبانی مخالفت ہی نہیں فرمائی؛ بلکہ عمل سے اس کی کھلم کھلا تردید کی اور ہر سال بکروں کے معمول کے باوجود اس سال گائے کی قربانی کا اہتمام کیا۔ (ملاحظہ ہو: قصص الاکابر، حضرت تھانوی ۲۰۲، تذکرے ۲۰۶)
ان تمام مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اتباعِ شریعت کی کیسی روح اللہ نے حضرت کے دل میں بھردی تھی، یہ جذبہ ہر صاحب ایمان کے لئے قابل اتباع وتقلید ہے۔
تواضع اور بے نفسی
حضرت شیخ الہندؒ کے اخلاق واوصاف میں تواضع، انکساری اور بے نفسی کا رنگ بہت نمایاں تھا، اور یہی آپ کی عظمت ومحبوبیت کا راز تھا، آپ کی تواضع کا ایک مظہر یہ واقعہ ہے:
’’مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا معین الدین صاحب معقولات کے مسلم عالم تھے، انہوں نے شیخ الہند کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا، تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے، اور حضرت شیخ الہند کے مکان پر پہنچ گئے، گرمی کا موسم تھا، وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صرف بنیان اور تہبند پہنے ہوئے تھے، مولانا معین الدین صاحب نے ان سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب سے ملنا ہے، وہ بڑے تپاک سے مولانا اجمیری کو اندر لے گئے، آرام سے بٹھایا اور کہا کہ ابھی ملاقات ہوجاتی ہے، مولانا اجمیری منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے اور مولانا کو بلایا، اس کے بعد مولانا اجمیری نے کہا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجئے، اُن