تدریس
۱۲۸۹ھ میں ہی آپ نے معاون مدرس کے طور پر دارالعلوم میں تدریسی خدمات شروع کردی تھیں ، ۱۲۹۲ھ میں آپ کو دارالعلوم کا باضابطہ مدرس طے کیا گیا، ایک سال بعد ہی سے آپ سے دورۂ حدیث شریف کی اہم کتب حدیث کا درس متعلق ہوگیا، یہ سلسلہ مسلسل ۴۴؍سال جاری رہا، اور ہزاروں طالبانِ علوم نبوت نے آپ سے استفادے اور تلمذ کا شرف پایا، ۱۳۰۵ھ میں آپ کو دارالعلوم کی مسند صدارتِ تدریس سونپی گئی جو تاحیات آپ کے وجود سے رونق یاب رہی، رجال سازی آپ کا نمایاں جوہر تھا، آپ کے تلامذہ علم وفضل کے آفتاب بنے، جن میں بطور خاص حضرت تھانوی، حضرت مدنی، علامہ کشمیری، علامہ عثمانیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی، مولانا گیلانی، مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ، مولانا سندھی، علامہ بلیاوی، حضرت مولانا فخر الدین رحمہم اللہ وغیرہ سرفہرست تھے۔
آپ کا درس بے حد مقبول ومنفرد ہوتا تھا، علوم ومعارف کا فیضان تھا جو جاری رہتا تھا، بالخصوص درسِ حدیث میں آپ کی محدثانہ، متکلمانہ، فقیہانہ اور محققانہ شان بہت نمایاں رہتی تھی، آپ کے تلامذہ نے آپ کی اس خصوصیت کا مفصل ذکر کیا ہے، اس اس کو یہاں نقل کرنا موجب طوالت ہوگا، تاہم آپ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کا یہ پیرا گراف نقل کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ لکھتے ہیں :
’’حقیقت یہ ہے کہ جس وقت (صحیح بخاری کے) تراجم ابواب کی بحث شیخ الہندؒ کے حلقہ میں چھڑجاتی تھی، تو حضرت والا پر بھی خاص حال طاری ہوجاتا تھا، اور سننے والے بھی محو حیرت بن جاتے تھے، وجد کی سی کیفیت میں معلوم ہوتا تھا کہ سارا مجمع ڈوب گیا ہے۔ کأن علی رؤوسہم الطیر کا منظر قائم ہوجاتا تھا، خود وہ بھی کھل جاتے تھے، اور سننے والے بھی کھلے جاتے تھے، نئے معارف، جدید حقائق جو نہ کبھی سنے گئے اور نہ پڑھے گئے، معلوم ہوتا تھا کہ اُن سے پردے ہٹ رہے ہیں ، دل کی گرہیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں ‘‘۔ (احاطۂ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ۱۵۶)