شدت حیا کی بنا پر استقبال قبلہ بالفرج میں حد درجہ غلو کرنے لگے ، یہاں تک کہ وہ حد شرعی سے تجاوز کر کے عام حالات پاخانہ، پیشاب ، استنجاء کے علاوہ غسل، جماع، دوران نماز میں قیام ، رکوع و سجود اور قعود کی حالتو ں میں استقبال بالفرج کو حرام سمجھنے لگے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس وقت جولوگ سجد ہ کرتے تھے تو اپنے پیٹ کودونوں رانوں سے بالکل چمٹا لیتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ استقبال بالفرج ہوجائے، حالانکہ یہ سنت کے بالکل خلاف تھا، ستر کے لئے کپڑوں کا ہونا کافی تھا، اسی طرح کا واقعہ حضرت ابن عباسؓ نے بھی نقل کیا ہے ،
ان عمومی حالات میں حضرات صحابہ کی شدت احتیاط کودیکھ کر جو رفتہ رفتہ حرج کے منزل میں قدم رکھ رہی تھی، بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا تواس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ :
حولوا مقعدتی قبل القبلۃ ۔
کہ میری نشست گاہ یعنی عام حالات کی بیٹھک کوقبلہ رخ کردو، تاکہ لوگ استقبال بالفرج میں غلو کرنے سے بچ سکیں ، اور امت اس حرج شدید میں مبتلانہ ہو۔(فتح الملہم:۱/۴۲۶)
یہ ہے حدیث کا مفہوم، جو صحابہ کرام کے طرز عمل کو سامنے رکھ کر متعین کیا گیا ، حدیث کی یہ ایسی تشریح ہے جو متقدمین شراح کے یہاں نہیں ملتی، اس مفہوم کی تعیین کے بعد حضرت امام شافعی ؒ کے لئے اس سے استدلال کا کوئی جواز نہیں باق رہ جاتا۔(مقام محمود/۶۷-۶۸)
(۱۰) سمند ر کے پانی اورمردارکے مسئلہ والی حدیث
صحابہ ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سمندر کے پانی کی بابت سوال کیا، سوال کی وجہ یہ تھی کہ