حکم دیا گیا ہے وہ قرآن وحدیث ہی کے بیان کردہ دوسرے اصول سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتا۔ حضرت شیخ الہندؒ اس حدیث کی توجیہ میں جو تقریر فرمایا کرتے تھے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت جہاں شارع اور قاضی کی تھی وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیثیت مربی و شیخ اور مرشد و مشیر کی بھی تھی، اس حیثیت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم قانونی فیصلوں سے ہٹ کر مسلمانوں کے درمیان صلح بھی فرمادیا کرتے تھے، اس حدیث مصراۃ میں ایک صاع کھجور واپس کرنے کا حکم قانونی طور پر نہیں بلکہ اسی حیثیت میں دیا گیا ہے ۔( ملاحظہ ہو/تذکرے۲۰۰از حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مد ظلہم)
(۳) وضوکا بچا ہوا پانی
حدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں مروی ہے کہ آنحضرت اوضو سے فارغ ہونے کے بعد وضو کا بچا ہوا پانی نوش فرمالیتے تھے، نیز یہ بھی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کے بعد اپنے تہبند کے رومال پر پانی کے چھینٹے دے لیتے تھے۔ علماء حدیث نے ان دونوں سنتوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے مختلف توجیہات ذکر فرمائی ہیں ، لیکن اس کی جو توجیہ حضر ت شیخ الہندؒنے فرمائی ہے وہ ذوقی اعتبار سے سب سے زیادہ لطیف ہے ، اس توجیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ وضو اعضاء ظاہری کی طہارت و نظافت حاصل کرنے کا ایک عمل ہے اور جس طرح طہارت ظاہری مطلوب ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اہمیت کے ساتھ باطن کی صفائی اور طہارت بھی مطلوب ہے ، چنانچہ وضو سے فراغت کے بعد آنحضر ت انے یہ دو عمل مسنون قرار دیئے جن سے طہارت باطنی کی طرف اشارہ مقصود ہے ، اور ان دو اعمال سے طہارت باطنی کا تعلق یہ ہے کہ تمام باطنی رذائل اور معصیتوں کا سر چشمہ انسان کے دو اعضاء ہیں ، ایک منہ یا زبان اور دوسرے شرمگاہ ،جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت اکا ارشاد ہے کہ :
من یضمن لی مابین لحییہ و مابین رجلیہ اضمن لہ