حضرت شیخ الہندؒ؛ شخصیت، خدمات وامتیازات
زندہ اور باحوصلہ قوموں کی ایک نمایاں شناخت یہ ہوتی ہے کہ ان کا رشتہ اپنے ماضی کی روشن تاریخ، ماضی کے اہل عزیمت اور آئیڈیل بزرگوں ، ماضی کے بیش قیمت اثاثہ اور رہنما اقدار سے بہت مضبوط ہوتا ہے، واقعہ یہی ہے کہ اپنے روشن ماضی سے وابستگی اپنے حال کو تاب ناک بنانے کا مستحکم ذریعہ ہے، اور پھر اسی سے درخشاں مستقبل کی تعمیر کی راہیں بھی ہموار ہوتی ہیں ۔
ہمارے ماضی کی بافیض، مثالی، قابل رشک شخصیات میں ایک بہت نمایاں نام ’’شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی (م۱۳۳۹ھ) کا ہے، جن کے تذکرے کے بغیر عزیمت واستقامت کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی، ان کی ذاتِ گرامی صرف ایک عالم ربانی، صرف ایک محدثِ جلیل، صرف ایک مفسر قرآن، صرف ایک صاحب نسبت شیخ کامل ہی کامقام نہیں رکھتی؛ بلکہ ان کی ذات علم وعمل، فراست وبصیرت، تدبر وحکمت، جہاد وعزیمت اور ثبات واستقامت کے ایک روشن شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔
وہ بیک وقت راسخ العلم عالم ربانی بھی تھے، مجسم زہد وتقویٰ بھی تھے، سربکف مجاہد بھی تھے، امت کے دردمند مصلح بھی تھے، سراپا عمل وحرکت، پیکر صدق وصلاح، علوم شریعت کے رمز شناس، مرجع خاص وعام، اعلیٰ نسبت روحانی کے حامل، ’’رہبان باللیل وفرسان بالنہار‘‘ (دن کے شہ سوار ومجاہد اور شب زندہ دار عابد ومرتاض) اسلاف کے مکمل اور صحیح معنوں میں وارث، روشن دماغ، عالی حوصلہ، بلند نگاہ، بقول شاعر:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر، میرِ کارواں کے لئے