تھے اپنے شکوک وشبہات کے کافی جواب پانے کے بعد حضرت مولانا کی زبان سے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے معانی اور مضامین عالیہ سن کر سرنیاز خم کر کے معترف ہوتے کہ یہ علم کسبی نہیں ہے ، اورایسا محقق عالم دنیا میں نہیں ہے ۔حلقہ درس دیکھ کر سلف صالحین و اکابر محدثین کے حلقۂ تحدیث کا نقشہ نظروں میں پھر جاتا تھا، قرآن وحدیث حضرت کی زبان پر تھا اور ائمہ اربعہ کے مذاہب ازبر، اور صحابہ و تابعین، فقہاء ومجتہدین کے اقوال محفوظ، نہایت سبک اور سہل الفاظ، بامحاورہ اردو میں اس روانی اور جوش سے تقریر فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ دریا امڈ رہا ہے ، استاذ (حضرت نانوتویؒ) کے حقائق و دقائق نقل فرماتے ، اور اپنی تحقیقات عجیبہ اور مضامین عالیہ سناتے مگر مفسرین و محدثین، شراح و مصنفین کا ادب اس درجہ ملحوظ رکھتے تھے، کہ کہیں شائبہ تنقیص بھی نہ آنے پاتا۔
مسائل مختلف فیہا میں ائمہ ثلاثہ( رحمہم اللہ) بلکہ دیگر مجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے، اور مختصر طور سے دلائل بھی نقل فرماتے لیکن جب امام ابو حنیفہؒ کا نمبر آتا تو مولانا کے قلب میں انشراح، چہرہ پر بشاشت، تقریر میں روانی، لہجہ میں جوش پیدا ہوجاتا، دلیل پر دلیل، شاہد پر شاہد، قرینہ پر قرینہ بیان کرتے چلے جاتے، تقریررکتی ہی نہ تھی، اور اس خوبی سے مذہبِ امام اعظم کو ترجیح دیتے تھے کہ سلیم الطبع او ر منصف المزاج لوٹ جاتے تھے۔ دور دور کی مختلف المضامین احادیث جن کی طرف کبھی خیال بھی نہ جاتا تھا پیش کر کے اس طرح مدعا ثابت فرماتے کہ بات دل میں اتر جاتی تھی، اورسامعین کا دل گواہی دیتا اور آنکھوں سے نظر آجاتاتھا کہ یہی جانب حق