میں تشریف لائے اور عین اثنائے وعظ تشریف لائے، اس وقت ایک بڑا عالی مضمون بیان ہورہاتھا، جس میں معقول کا ایک خاص رنگ تھا، ہم لوگ خوش ہوئے کہ ہمارے اکابر کی نسبت معقولات میں مہارت کم ہونے کا شبہ آج جاتا رہے گا، اور سب دیکھ لیں گے کہ معقول کس کو کہتے ہیں ، مولانا (شیخ الہندؒ) کی جوں ہی مولانا علی گڈھی پر نظر پڑی، فوراً وعظ بیچ ہی میں قطع کرکے بیٹھ گئے، مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہیؒ بوجہ ہم درس ہونے کے بے تکلف تھے، انہوں نے دوسرے وقت عرض کیا کہ یہ کیا کیا؟ یہی تو وقت تھا بیان کا، فرمایا: ’’یہی خیال مجھ کو آیا تھا‘‘ اس لئے قطع کردیا کہ یہ تو اظہار علم کے لئے بیان ہوا نہ کہ اللہ کے واسطے‘‘۔ (ذکر محمود ۵، تذکرے ۲۰۷)
للہیت، اخلاص، بے لوثی، احتساب اور رضائے الٰہی کی فکر پر مبنی یہ کردار پوری امت کے لئے منارۂ نور ہے۔
آپ کی اخلاص وللہیت کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ جب آپ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس نام زد ہوئے تو دیگر مدرسین کے ساتھ آپ کی تنخواہ میں بھی اضافہ ہوا، آپ کو احساس ہوا کہ دینی تعلیم پر معاوضہ نہیں لینا چاہئے، تنخواہ نہ لینے کا ارادہ حضرت گنگوہیؒ کے سامنے ظاہر کیا، حضرت نے فرمایا کہ حق المحنت لیتے رہو، یہ اخلاص کے خلاف نہیں ہے، حضرت کے کہنے پر تنخواہ لیتے رہے، حضرت کی وفات کے بعد پھر تنخواہوں میں اضافہ ہوا، تو آپ نے اضافی رقم لینے سے صاف انکار کردیا، کچھ عرصے بعد تنخواہ لینی بالکل بند کردی اور حسبۃً للہ درس دیتے رہے۔ (حضرت شیخ الہند: مولانا اسیر ادروی ۳۲۴)
اکرام ضیف
اکرام ضیف (مہمان نوازی) صاحب ایمان کی ایمانی شخصیت کے لوازم میں سے ہے، سیرت شیخ الہند میں اس ایمانی وصف کی بھی خوب خوب جلوہ گری ملتی ہے، حضرت کے