کا قرآن چھوڑدینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفظاً ومعناً عام کیا جائے، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کئے جائیں ، بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔ (وحدتِ امت، از: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ ۵۰، تذکرے، از: حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم ۲۰۴)
امت کی عظمت رفتہ اور وقار گذشتہ کی بحالی اور بازیابی کا یہ دو نکاتی فارمولہ تھا جو شیخ الہند جیسے نباض ملت نے تجویز کیا تھا، اور پھر خود اس سمت میں محنت شروع کردی تھی، اور دوسرے لفظوں میں امت کو اور بطور خاص اپنے خلف کو یہ پیغام دیا تھا کہ ان دونوں محاذوں پر اولین توجہ کے ساتھ سرگرمی بڑھائی جائے۔
اخلاص
چوتھی چیز حضرت شیخ الہندؒ کے اخلاص، صفائے باطن اور صدقِ نیت سے متعلق ہے، اور یہ حضرت کی حیاتِ مستعار کا بے حد تابناک گوشہ ہے، حضرت کے شاگرد رشید حضرت حکیم الامت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’ایک بار احقر کی درخواست پر مدرسہ جامع العلوم کانپور کے جلسہ دستاربندی میں رونق افروز ہوئے، اور احقر کے بے حد اصرار پر وعظ فرمانے کا وعدہ فرمایا، جامع مسجد میں وعظ شروع ہوا، جناب مولانا لطف اللہ صاحب علی گڈھی بھی کانپور تشریف لائے ہوئے تھے، میرے عرض کرنے پر جلسہ