اصل صورت میں آیا ہو یا بصورتِ بشر، وحی کے اندر تو یہ تعمیم ہوگی۔
دوسرا لفظ’’بدء‘‘ ہے ، اس میں بھی تعمیم ہوگی: بدایت باعتبار مکان، کہ کس جگہ سے شروع ہوئی؟ بدایت باعتبار زمان کہ کس زمانے سے شروع ہوئی؟ بدایت باعتبار ماحول و احوال، کہ کن حالات میں ابتداہوئی؟بدایت باعتبار صفات موحی الیہ و مبعوث الیہم ، کہ جس پر وحی نازل ہورہی تھی اس کی صفات کیا تھیں ؟ اور جن کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا گیاہے ان کی کیا صفات تھیں ؟ لفظ’’بدء‘‘ کے ا ندر اس طرح کی تعمیم مانیں گے۔
اسی طرح لفظ ’’ کیف‘‘ ہے، اس کے اندر بھی زمانی، مکانی، موحی الیہ اور مبعوث الیہم کی تعمیم ہوگی، اس طرح ترجمہ کے اندر بڑی وسعت آجائے گی اورتمام احادیث کے ترجمۃالباب پر انطباق میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ تمام احادیث میں وحی کی کسی نہ کسی کیفیت اور حالت کا ذکر ہے ۔(کشف الباری: از حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہم:۱/۲۱۵-۲۱۶)
(۱۲) وزن اعمال
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح کا آخری باب اس عنوان سے قائم فرمایا ہے
’’ باب و نضع الموازین القسط لیوم القیامۃ و ان اعمال بنی آدم توزن‘‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت میں میزان عدل قائم ہوگی اورانسانوں کے تمام اعمال کا وزن ہوگا، یہاں یہ مشہور کلامی بحث چھڑ گئی ہے کہ اعمال تو اعراض ہیں اور وزن صرف جواہر و اجسام کا ہوسکتا ہے ، اعمال کا وزن کیسے ہوگا؟ اس کے جواب میں مختلف علماء نے مختلف توجیہات اختیار کی ہیں ، کسی نے کہا کہ اعمال ناموں کا وزن ہوگا، کسی نے کہا کہ اعمال کی کیفیت جانچنے کو مجازاً وزن سے تعبیر کیا گیا ہے، اور کسی نے کہا کہ اعمال بشکل جواہر آئیں گے اور انہیں تولا