جائے گا۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ بخاری شریف کے ختم کے موقع پر بیان فرماتے تھے کہ دیوبند میں ہر سال جب حضرت شیخ الہندؒ بخاری شریف کا ختم کراتے تومیں اس درس میں شامل ہواکرتا تھا،حضرت اس سوال کے جواب میں جو کچھ فرماتے وہ سب سے زیادہ اطمینان بخش توجیہ تھی، حضرت شیخ الہندؒ فرماتے کہ:
یہ سوال پرانے زمانے میں تو کسی درجہ میں قابل اعتناء تھا، لیکن ہمارے زمانے میں تواس سوال کی گنجائش نہیں ، آج کے دور میں صرف جواہر و اجسام ہی کانہیں بلکہ اعراض کا وزن بھی کیا جاتا ہے ،اور ہر چیز کے لئے الگ پیمانے مقرر ہیں ، مثلاً حرارت کی تھرمامیٹر کے ذریعہ پیمائش کی جاتی ہے، ہوا میں رطوبت کا تناسب ناپاجاتا ہے ، لہذا اگر انسان اپنی محدود عقل کے ذریعہ ان اعراض کی پیمائش کرسکتا ہے تو مالک الملک و الملکوت نے اگر اعمال کے وزن کے لئے کوئی مخصوص میزان عدل مقرر فرمادی ہو تو اس میں تعجب اور استبعاد کی کیا بات ہے ؟( تذکرے /۱۹۹ـ-۲۰۰)
حدیث کی سند عالی کا شرف و امتیاز
حضرت شیخ الہند کے اصلِ استاذِ حدیث حضرت نانوتویؒ تھے، جن کے اساتذہ میں حضرت شاہ عبد الغنی مجددیؒ تھے،۱۲۹۴ھ میں حضرت نانوتوی اور دیگر اکابر کے ہمراہ حضرت شیخ الہندؒ نے بھی سفر حج فرمایا، اور دوران سفر باربار اپنے استاذ حضرت نانوتوی کے ہمراہ مدینہ منورہ میں حضرت شاہ عبد الغنی مجددیؒ کی خدمت میں اور مکۃ المکرمہ میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔
حضرت شیخ الہندؒ کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ حضرت شاہ عبد الغنی مجددی سے