اسباق پڑھاکر سیدھے حضرت کے گھر حاضر ہوتے اور پوری خدمت فرماتے۔
واقعات میں آتا ہے کہ:
’’ایک بار حضرت نانوتویؒ اپنے وطن نانوتہ میں بیمار ہوگئے، شیخ الہند عیادت کے لئے گئے، تو انہوں نے دیوبند چلنے کی خواہش کا اظہار کیا، آپ نے اس کا بندوبست شروع کردیا، برسات کا موسم تھا، ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی، اسی میں سفر کرنا تھا، آپ نے ایک گھوڑا فراہم کیا، حضرت نانوتویؒ کو گھوڑے پر بٹھایا، اپنی لنگی اوپر چڑھاکر باندھ لی، پھر ایک ہاتھ میں چھتری رکھی؛ تاکہ حضرت کو بارش سے بچاکر لے چلیں ، اور دوسرے ہاتھ سے ان کی پشت کو سہارا دیتے رہے؛ تاکہ کمزوری کی وجہ سے وہ گر نہ جائیں ، اس طرح ۱۴؍میل کا راستہ طے کیا اور دیوبند پہنچے‘‘۔ (تذکرۂ مشائخ دیوبند ۲۲۰)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ:
حضرت شیخ الہند جب اس سفر میں جانے لگے، جس میں قید کرکے مالٹا پہنچادئے گئے، تو ہمارے گھر تشریف لائے، اس وقت دادی صاحبہ (اہلیہ حضرت نانوتویؒ) حیات تھیں ، دہلیز کے پاس پردہ کے پیچھے پیڑھا ڈال دیا گیا، اس پر بیٹھ گئے، اور فرمایا کہ اماں جی! مجھے اپنی جوتیاں دے دیجئے، اندر سے جوتیاں دے دی گئیں ، تو ان کو اپنے سر پر رکھ کر دیر تک روتے رہے، اور فرمایا کہ میں اپنے استاذ (حضرت نانوتویؒ) کی خدمت کا حق ادا نہ کرسکا، اس کا مجھے افسوس ہے۔ (ملفوظاتِ فقیہ الامت)
اتباعِ شریعت
حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی کا ایک بہت امتیازی پہلو اتباعِ شریعت وسنت کا جذبۂ بے