تہ تک تمہاری نظر نہیں پہونچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی مبارک کے ساتھ ہے ، وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے، پیغمبر انے ہم سے کیا چاہا تھا اورہم کیا کررہے ہیں ، اس سے کون ناواقف ہے ، پھر سبکی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی، جومسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت بن جاتی ہے، اس کی وجہ محبت تونہیں ہوسکتی، خاکسار نے عرض کیا، تو آپ ہی فرمائیں ، اس کی صحیح وجہ کیا ہے ؟
نفسیات انسانی کے اس مبصر حاذق نے فرمایا کہ سوچوگے تودر حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کاغیر شعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے ،مسلمانوں کی خود ی اورانانیت مجروح ہوتی ہے ، ہم جسے اپنا پیغمبر اوررسول مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کرسکتے، چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’’ ہم‘‘ پر پڑتی ہے لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے انتقام پر ان کو آمادہ کیاہے ،نفس کا یہ دھوکہ ہے ، اپنی جگہ ٹھنڈے دل سے جو غور کرے گا، اپنے طرز عمل کے تناقض کے اس نتیجہ تک پہونچ سکتا ہے ، بہر حال محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہورہی ہے اورلایعنی اور لاحاصل گپو ں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کر کے موذن کی پکارپر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہئے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منھ پر کس حد تک پھبتا ہے ۔
حضرت والا کی تقریرکا یہی خلاصہ تھا، ظاہر ہے کہ ندامت اور شرمندگی کیساتھ سر جھکا لینے کے سوا ، ان کی اس نفسیاتی تنبیہ کے بعد میرے لئے کچھ اور پوچھنے کی گنجائش ہی کیا باقی رہی تھی۔( احاطۂ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن/۱۵۳-۱۵۵)
(۵) حدیث فہمی کا ایک اصول
حضرت شیخ الہندؒحدیث فہمی کا ایک زریں اصول بھی بیان فرماتے تھے، جس سے علماء