حالات میں آتا ہے کہ تواضع اور مہمان نوازی کی خاص شان آپ میں تھی، اور اس باب میں مسلم اور غیرمسلم اور امیر وغریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا،جو مہمان بھی آپ کے ہاں آتا تھا، بڑی خوش دلی سے آپ اس کی خبر گیری فرماتے تھے، اور اسے آرام پہنچانے میں دلی مسرت محسوس کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو: ارواحِ ثلاثہ)
حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’مہمانوں کی خدمت فرماتے، کبھی کھانا زنانہ مکان سے لاکر مہمانوں کے سامنے رکھتے، عشاء کے بعد کھڑے ہیں اور سب کی ضروریات کو دریافت کررہے ہیں ، خادم اور مہمان شرم سے پانی پانی ہوئے جارہے ہیں ، اور حضرت مکان میں سے بستر اور لحاف اٹھاکر لارہے ہیں ، مالٹا سے واپسی کے بعد حضرت بہت ضعیف ہوگئے تھے، مجمع بھی بے تعداد رہتا تھا، پھر بھی ہر شخص سے اس کی راحت وآرام وقیام کا حال کچھ نہ کچھ دریافت فرمالیتے تھے، رخصت ہونے والوں کے لئے ریل کے وقت سے پہلے بہت اہتمام وتاکید سے کھانا تیار کراتے تھے، ناواقف مہمانوں کی بے تمیزی پر صبر فرماتے تھے‘‘۔ (حیاتِ شیخ الہند ۲۲۵)
اساتذہ کا اکرام وخدمت
علم کے آداب اور نور علم کے حصول کی شرطوں میں ایک بنیادی چیز اساتذہ کا اکرام اور خدمت بھی ہے، حضرت شیخ الہند کی سیرت اس حوالہ سے بھی نمونے کا مقام رکھتی ہے، حضرت کے استاذ اکبر حضرت نانوتویؒ تھے، آپ کے دل میں حضرت نانوتوی کے لئے عقیدت کا بے پناہ جذبہ تھا، دارالعلوم میں استاذ ہونے کے بعد بھی آپ حضرت نانوتویؒ کی خدمت میں لگے رہتے تھے، ایک موقع پر حضرت علیل وصاحب فراش ہوگئے، آپ اپنے