تراجم ابواب کا معاملہ ہے ، قرآنی آیات میں مناسبت اور باہمی ربط جیسے قرآن کی سب سے بڑی حکمت ہے ، اسی طرح امام بخاری کے تراجم ِابواب کا رنگ بھی قریب قریب وہی ہے، بظاہر بے ربطی میں ہی ربط کا راز پوشیدہ ہوتا ہے ،شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تراجم کے حل کو اپنی بحث کا موضوع بناکر مستقل رسالہ ہی ارقام فرمایا ہے، کوئی شبہ نہیں کہ حضرت شاہ صاحب کے اس رسالے نے بخاری کے تراجم ابواب کے سمجھنے کی نئی شاہراہ شاید پہلی دفعہ کھولی، یہی ولی اللہی راہ تھی جو شیخ الہند ؒ کے سامنے وراثتہ آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ جس وقت تراجم ابواب کی بحث شیخ الہندؒ کے حلقے میں چھڑ جاتی تھی، توحضرت والا پر بھی خاص حال طاری ہوجاتا تھا، اور سننے والے بھی محو حیرت بن جاتے تھے، وجد کی سی کیفیت میں معلوم ہوتا تھا کہ سارا مجمع ڈوب گیا ہے ، کأن علی رؤوسہم الطیر کا منظر قائم ہوجاتا تھا، خود وہ بھی کھل جاتے تھے، اور سننے والے بھی کھلے جاتے تھے، نئے معارف،جدید حقائق جو نہ کبھی سنے گئے، اور نہ پڑھے گئے ، معلوم ہوتاتھا کہ ان سے پردے ہٹ رہے ہیں ، دل کی گرہیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں ۔
اپنے تراجم میں امام بخاری کا قاعدہ یہ ہے کہ قرآنی آیتوں کوحسب ضرورت شریک کرتے چلے گئے ہیں ، اس بہانے سے ان قرآنی آیتوں کے نئے پہلوؤ ں کے جاننے ہی کا موقع نہیں ملتا تھا، بلکہ قرآن فہمی کی نئی راہیں بھی کھلتی تھیں ، اور میں کیا بتاؤں کہ ترمذی شریف کے درس کے بعد، بخاری شریف کا درس جب شروع ہوا تودل کے لئے بھی اور دماغ کے لئے بھی کیسی لذیذ خوراکیں ملنے لگیں ، ایسی خوراکیں ، جو منطق کی کسی کتاب میں