جوق درجوق حاضر ہونے لگے۔
تدریس حدیث کا اسلوب وامتیاز
حضرت شیخ الہند نے اپنے مرکز عقیدت استاذ حضرت مولانا نانوتوی کے اسلوب و انداز کی اتباع جاری رکھی اور فلسفیانہ انداز و طریق کے عموم و رواج کی وجہ سے طالبین کے ذہنوں کو حدیث نبوی، فقہ اسلامی اور شریعت مقدسہ کے تعلق سے مکمل منشرح و مطمئن کرنے اور ہرنوع کے خلجانات و شکوک کے سد باب کے مقصد سے ’’ امعان و تعمق‘‘ کا وہ اندازِ درس جاری رکھا جس میں حدیث کے ہر ہر لفظ و جملے اور اس کے تمام متعلقات، نکات، حقائق، لطائف او ر دقائق پر سیر حاصل بحث کی جائے، اور ہر ہر جزء مکمل طور پر منقح کردیا جائے۔
حضرت شیخ الہند کے تلمیذ ِ ارشد عارف باللہ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ نے حضرت کے انداز درس کی انتہائی سچی تصویر کشی کی ہے، لکھتے ہیں :
’’مولانا کا حلقۂ درس نہایت مہذب اور شائستہ ہوتا تھا، دوسرے مدارس کے فارغ یافتہ اور بڑے بڑے ذہین طالب علم نہایت مؤدب طریق سے حاضر خدمت رہتے ،اور حضرت کمال عظمت وقار سے درس دیتے، مستعد طالب علم بار بار اور طرح طرح سے اپنے شکوک و شبہات پیش کرتے تھے اس طرح کہ حلقۂ درس بالکل مجلس مناظرہ بن جاتی تھی ، کبھی حضرت کے الزامی جواب طالب علم کو ساکت کردیتے تھے ، اور کبھی جامع مانع تقریر ’’ شفاء لما فی الصدور‘‘ کا کام دیتی تھی، الزامی جواب میں ملکہ تام تھا، اوراس خوبی و قوت استدلال سے تقریر فرماتے کہ سائل کو شرح صدر ہوجاتا۔
بہت سے ذی استعداد ذہین و فطین طالب علم جومختلف اساتذہ کی خدمتوں سے استفادہ کرنے کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے