عزیمت واستقامت اور فداکاری
تحریک ریشمی رومال کی پوری داستانِ ثبات واستقامت اور قائد تحریک حضرت شیخ الہند کی جدوجہد اور اسارت وجواں مردی سے امت کو جو پیغام ملتا ہے، امت اور بطور خاص نوجوان نسل معاصر پرآشوب حالات کے تناظر میں جو سبق اس سے حاصل کرسکتی ہے، اور جسے اس پوری تحریک کا خلاصہ وعطر اور جوہروروح، اور اس کے قائد کی فکر، سوز اور درد قرار دیا جاسکتا ہے، وہ ’’عزیمت، ثابت قدمی، استقامت اور حق کے لئے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ‘‘ ہے، حضرت شیخ الہند کی حیات وسیرت کا سب سے زیادہ قابل رشک وتقلید پہلو اور سب سے روشن پیغام اور سبق موقف حق کے لئے استقامت اور فداکاری ہے۔
اسارت مالٹا کے دور میں ایک طرف قید بامشقت کا دشوار مرحلہ تھا، دوسری طرف موسم کی ناسازگاری اور بے انتہاء سردی کی مشقت تھی، مالٹا کے خطہ میں سخت برفانی ہوائیں چلتی تھیں ، ان کی شدت کا کیا عالم ہوتا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ لکھتے ہیں :
’’کیمپ جہاں یہ قافلہ رکھا گیا تھا، اگرچہ خندق میں واقع تھا، مگر چوں کہ اس میں فقط خیمے تھے، اس لئے وہ سردی سے پوری طرح حفاظت نہ کرسکتے تھے، اور پھر کھلا ہوا میدان تھا، باوجودیکہ ہم اپنے کپڑوں کو پہنے ہوئے دودو کمبل اورایک ایک چادر اوڑھے ہوئے گدوں پر ایک کمبل بچھائے ہوئے ہوتے تھے، مگر تقریباً دو بجے رات سے کثرتِ سردی کی وجہ سے نہ اٹھنے کی ہمت ہوتی تھی اور نہ نیند ہی آتی تھی، صبح کے وقت مجبور ہوکر نماز کے لئے اٹھنا پڑتا تھا، تو خیمہ سے سرنکالنا ایک عذابِ الیم کا سامنا ہوتا تھا، سرد ہوا کے اس زور کے تھپیڑے لگتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ جسم کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا‘‘۔ (سفر نامہ مالٹا ۹۱)