احسان وسلوک ومعرفت
۱۲۹۴ھ میں آپ نے حضرت نانوتویؒ ودیگر اکابر کی معیت میں حج بیت اللہ کا سفر کیا، اس موقع پر مکۃ المکرمہ میں سیدالطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت وانتساب کا تعلق قائم کیا اور اسی سفر میں حضرت کی طرف سے اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے، حضرت حاجی صاحب کے علاوہ آپ کو حضرت نانوتویؒ اور حضرت گنگوہیؒ سے بھی اجازت وخلافت حاصل تھی، اکابر اہل اللہ کے ساتھ اس نسبت نے آپ کو صفائے باطن، اتباعِ سنت، اخلاقِ عالیہ، تواضع وفروتنی، اخلاص وللہیت کے بے انتہاء بلند مقام پر پہنچادیا تھا۔
تحریکی وجہادی خدمات
حضرت شیخ الہند کی حیاتِ عزیمت کا انتہائی روشن باب تحریک آزادی اور جہادِ حریت کے میدان میں ان کی بے مثال جدوجہد اور قائدانہ سرگرمی ہے، ملک کو انگریزوں کے استبداد سے نجات دلانے کے لئے اور امت کے وقار گذشتہ کی بحالی کے لئے آپ شب وروز فکر مند رہتے تھے، آپ قیام دارالعلوم کا مقصد تعلیم وتربیت کے ساتھ ہی ساتھ اس عظیم انقلابی ملکی وملی خدمت کے لئے افرادِ کار تیار کرنا بھی سمجھتے تھے، چناں چہ سب سے پہلے آپ نے اپنے استاذ حضرت نانوتویؒ کی ایماء پر اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۲۹۵ھ میں ایک تنظیم ’’انجمن ثمرۃ التربیت‘‘ کے نام سے بنائی، یہ بظاہر دارالعلوم کے ابنائے قدیم کی ایک اجتماعی تنظیم تھی، جو درحقیقت آزادئ وطن اور جہادِ حریت کا اصل مشن آگے بڑھانے کے مقصد سے وجود میں آئی تھی، اس تحریک کی اصل سرگرمی قبائلی علاقوں میں تھی، حضرت نے اپنے شاگرد مولانا سندھیؒ کو سندھ کے اطراف میں آزادئ ہند کے لئے مخفی اور منظم کوششوں پر مامور کررکھا تھا۔
۱۳۲۷ھ مطابق ۱۹۰۹ء میں یہ تحریک ’’جمعیۃ الانصار‘‘ کے نئے نام سے سامنے آئی،