دلیل ہیں (جمہور کی جانب سے ) اس میں چند تاویل ہیں ،ایک تاویل عائشہؓ نے فرمائی ہے کہ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کلام کو نہیں سمجھے، آپ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ(کافر) میت کے اہل خانہ اس پرروتے ہیں ، ا س کے مفاخر ذکر کرتے ہیں ،حالانکہ اس کا حال نہیں جانتے کہ اسے تو کفر کے سبب عذاب دیا جارہا ہے تو سامع نے سمجھا کہ اس پر رونے کے سبب عذاب ہورہا ہے یایہ تاویل کی جائے کہ تعذیب کی وعید عام نہیں ہے بلکہ خاص اس شخص کے بارے میں ہے جو اہل خانہ کے اس طرح رونے پر راضی تھا یا اس شخص کے بارے میں ہے جس نے اس کی وصیت کی ہو، لہذا اللہ تعالیٰ کے مذکورہ قول کا اعتراض وارد نہ ہوگا، اور ممکن ہے کہ نزاع محض لفظی ہو، اس لئے کہ عمر ؓ اور ابن عمرؓ اس شخص کے حق میں تعذیب کے قائل نہیں جس نے وصیت نہ کی ہو، اور وہ اس کے قائل ہوبھی کیسے سکتے ہیں جب کہ یہ صریح نص قرآنی کے خلاف ہے ،اورحضرت عائشہؓ وغیرہ اس شخص کے حق میں تعذیب کا انکار نہیں کرتے ، جس نے اس کی وصیت کی یا اس پر راضی رہا، اور یہ حضرات بھی نص صریح من سن سنۃ حسنۃ (الحدیث) کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں ، تو فریقین کا مقصد تعذیب سے تعذیب روحانی اور ندامت ہے ۔(فکر انقلاب: شیخ الہند نمبر/۳۲۴-۳۲۵)
(۸) یوم الشک کا روزہ
۲۹؍ شعبان کواگر چاند نظر نہ آئے تو ۳۰؍ شعبان کا دن فقہاء کی اصطلاع میں ’’ یوم الشک‘‘ کہلاتا ہے۔ فقہاء حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ’’یوم الشک‘‘ میں روزہ رکھنا عوام کے لئے مکروہ ہے ، البتہ وہ خواص اہل علم جو محض نفل کی نیت سے روزہ رکھیں اور ان کے دل میں