الجنۃ۔
’’ جوشخص میرے سامنے اپنی دو چیزوں کو( معصیت سے محفوظ رکھنے) کی ضمانت دے دے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ، ایک وہ چیز جواس کے جبڑوں کے درمیان ہے ( یعنی زبان) اور دوسرے وہ چیز جو اس کی ٹانگوں کے درمیان ہے ( یعنی شرم گاہ)۔
چنانچہ وضو کے بعد بچا ہوا پانی پی کر اور زیر جامہ چھینٹے مارکر معصیت کے ان ہی سر چشموں کی طہارت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے ۔( تذکرے/۱۹۷)
(۴)محبت نبوی میں نفسانیت
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ لکھتے ہیں :
بخاری شریف کا سبق ہورہا تھا، مشہور حدیث گزری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے مال اور بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کے لئے محبوب نہ ہوجاؤں
لایؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین۔( بخاری کتاب الایمان)
فقیر ہی نے عرض کیا کہ بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں ، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو توایک حد تک مسلمان برداشت کرلیتا ہے ، زیادہ سے زیادہ گالیوں کے جواب میں وہ بھی گالیوں پر اترآتا ہے ، لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں ، آئے دن مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے، سن کر حضرت نے فرمایا کہ ہوتابے شک یہی ہے ، جوتم نے کہا، لیکن ایسا کیوں ہوتاہے ؟