اور یہ سب حضرت کے علمی نبوغ ورسوخ اور محققانہ کمال وجوہر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
وفاتِ حسرت آیات
۳۰؍نومبر ۱۹۲۰ء مطابق ۱۸؍ربیع الاول ۱۳۳۹ھ بروز منگل صبح ۹؍بجے بوقت چاشت حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے دہلی میں آخری سانس لی، اور یہ آرزو لے کر رخصت ہوگئے کہ: ’’افسوس میں بستر پر مررہا ہوں ، حسرت تو یہ تھی کہ میدانِ جہاد میں ہوتا اور اعلاء کلمۃ الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کردئے جاتے‘‘ اس شوق شہادت کے ساتھ آپ اپنے رب سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ہزارہا ہزار عقیدت مندوں نے نماز جنازہ ادا کی اور قبرستانِ قاسمی میں اپنے استاذ حضرت نانوتویؒ کے جوار میں آپ کو سپرد خاک کردیا گیا، حضرت مدنی نے لکھا ہے:
ایک غم زدہ کی زبان نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا:
مٹی میں کیا سمجھ کے چھپاتے ہو دوستو
گنجینۂ علوم ہے یہ، گنجِ زر نہیں
(بیس بڑے مسلمان بحوالہ: سوانح ۱۵۲)
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت کو سچا خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کے اجلاس سوم لاہور (۱۹۲۱ء) کے خطبہ صدارت میں کہاتھا:
’’ان کی وفات بلاشبہ ایک قومی ماتم ہے … مولانا مرحوم ہندوستان کے گذشتہ دورِ علماء کی آخری یادگار تھے، ان کی زندگی اِس دورِ حرمان وفقدان میں علماء حق کے اوصاف وخصائل کا بہترین نمونہ تھی، ان کا آخری زمانہ جن اعمالِ حقہ میں بسر ہوا وہ علمائے ہند کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے، ستر برس کی عمر میں جب ان کا قد ان کے دل کی طرح اللہ کے آگے جھک چکا تھا،