طالب علم ہوگا، کافی دیر کے بعد میں نے جو مڑکر دیکھا تو حضرت شیخ الہند میرے پاؤں دبا رہے تھے، میں ایک دم سے اٹھ گیا اور کہا کہ حضرت! یہ آپ نے کیا غضب کردیا؟ حضرت نے فرمایا کہ غضب کیا کرتا؟ تم ساری رات تراویح میں کھڑے رہتے ہو، میں نے سوچا کہ دبانے سے تمہارے پیروں کو آرام ملے گا، اس لئے دبانے کے لئے آگیا‘‘۔ (اصلاحی خطبات ۵؍۳۵-۳۶)
حضرت کے حالات میں آتا ہے کہ تواضح اور فنائیت بہت غالب تھی، حضرت کی مسجد میں ’’کسیر‘‘ نامی تالابوں میں پیدا ہونے والی نرم اور گرم گھاس (جو سوکھنے کے بعد قالین جیسی گرم ہوجاتی تھی) موسم سرما میں بچھائی جاتی تھی، ایک بار چار طلبہ کے ساتھ حضرت یہی گھاس لانے تالاب کی طرف گئے، طلبہ کے ساتھ خود بھی گھاس درانتیوں سے کاٹتے رہے، کاٹ کر جمع شدہ ذخیرے کے پانچ گٹھر بنائے، چار گٹھر طلبہ کے سروں اور ایک اپنے سر پر رکھ لیا، طلبہ نے اصرار کیا مگر نہ مانے، اور بلاکسی عار اور شرم کے وہ گٹھر اٹھاکر شہر سے گذرتے ہوئے مسجد میں آگئے۔ (پچاس مثالی شخصیات)
حضرت شیخ الہند تحریک خلافت کے سرگرم حامی؛ بلکہ روحِ رواں تھے، جب کہ آپ کے شاگرد حضرت تھانویؒ تحریک خلافت کے سخت ناقد تھے، حضرت شیخ الہند نے کبھی بھی حضرت تھانوی کی تنقید کا برا نہیں مانا، جو حضرت کی بے نفسی اور عظمت کی دلیل ہے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :
’’حضرت کے قلب پر میرے اختلاف سے ذرہ برابر گرانی نہ تھی، ایک مرتبہ تحریک خلافت کے زمانہ میں حضرت کی بیٹھک میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے میرے متعلق برے بھلے الفاظ کہہ رہے تھے، کچھ الفاظ حضرت کے