کانوں میں پڑگئے، باہر تشریف لائے، بہت خفا ہوئے، اور یہ فرمایا کہ: خبردار! جو آئندہ ایسے الفاظ کبھی استعمال کئے،اور یہ فرمایا کہ میرے پاس کیا وحی آئی ہے کہ جو کچھ میں کررہا ہوں وہ سب ٹھیک ہے، میری بھی ایک رائے ہے اور اس کی بھی ایک رائے ہے، ہمیں تو اس پر فخر ہے کہ جو شخص تمام ہندوستان سے بھی متأثر نہ ہوا اور کسی کی بھی پرواہ نہ کی وہ بھی ہماری جماعت سے ہے‘‘۔(ملفوظات حکیم الامت/۱۱۴)
اختلافِ رائے کو برداشت کرنے، اجتہادی معاملات میں اپنی رائے کو حق سمجھنے پر اصرار سے بچنے اور بے انتہاء تواضع اور بے نفسی کا مظہر یہ واقعہ تمام خدام دین کے لئے اپنے اندر عبرتوں اور نصیحتوں کے بہت سامان رکھتا ہے۔
جن حضرات کو توجہ کے ساتھ صحیح بخاری سمجھنے، سمجھانے اور پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان کے سامنے مختلف اکابر محققین کی الگ الگ رائیں سامنے آتی ہیں ، خاص طور پر امام بخاری کے تراجم ابواب (موضوعات وعناوین) کی تشریح میں شارحین ومحققین اپنے ا پنے مذاق کے مطابق وضاحت کرتے ہیں ، ایسے کسی موقع پر جب حضرت شیخ الہند کی رائے سامنے آتی ہے تو دل بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ یہ رائے بے حد وزنی اور قابل ترجیح ہے، اپنے درسِ بخاری میں حضرت کا معمول تھا کہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے حددرجہ تواضح اور بے نفسی کے ساتھ فرماتے تھے کہ: ’’اور کچھ خیال میں یوں بھی آتا ہے‘‘ اس سے آپ کی منکسرانہ طبیعت ظاہر ہوتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجالس علم وذکر، از: حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہم ۲؍۱۱۳)
حضرت حکیم الامت نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت شیخ الہند نے فرمایا:
’’بارہا حاضری گنگوہ کے وقت خیال ہوا کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ سے حدیث کی اجازت کی درخواست کروں ، مگر معاً یہ خیال آیا کہ اگر پوچھ