صاحب نے فرمایا کہ آپ بے فکر رہیں اور آرام سے تشریف رکھیں ، تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانے پر اصرار کیا، مولانا اجمیری نے کہا کہ میں مولانا محمود صاحب سے ملنے آیا ہوں ، آپ انہیں اطلاع کردیجئے، ان صاحب نے فرمایا کہ انہیں اطلاع ہوگئی ہے، آپ کھانا تناول فرمائیں ، ابھی ملاقات ہوجاتی ہے، مولانا اجمیری نے کھانا کھالیا تو ان صاحب نے انہیں پنکھا جھلنا شروع کردیا، جب دیر ہوگئی تو مولانا اجمیری برہم ہوگئے، اور فرمایا: آپ میرا وقت ضائع کررہے ہیں ، میں مولانا سے ملنے آیا تھا اور اتنی دیر ہوچکی ہے، ابھی تک آپ نے ان سے ملاقات نہیں کرائی، اس پر وہ صاحب بولے: دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں ، البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے، مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے‘‘۔ (تذکرے ۲۰۷-۲۰۸)
حضرت شیخ الہند کی تواضع اور انکساری کا ایک اور نمونہ درج کیا جاتا ہے، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا:
’’حضرت شیخ الہند کے یہاں رمضان المبارک میں یہ معمول تھا کہ عشاء کے بعد تراویح شروع ہوتی تو فجر تک ساری رات تراویح ہوتی تھی، ہر تیسرے یا چوتھے روز قرآنِ کریم ختم ہوتا تھا، ایک حافظ صاحب تراویح پڑھایا کرتے تھے اور حضرت والا پیچھے کھڑے ہوکر سنتے تھے، تراویح سے فارغ ہونے کے بعد حافظ صاحب وہیں حضرت والا کے قریب تھوڑی دیر کے لئے سوجاتے تھے، حافظ صاحب فرماتے تھے کہ ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کوئی آدمی میرے پاؤں دبارہا ہے، میں سمجھا کہ کوئی