کرکے بھیجو‘‘۔ (نقش حیات ۲؍۶۵۰)
غور کیا جائے کہ اس خلافِ شریعت وحق فتویٰ پر تمام خطرات کے باوجود حضرت نے تائیدی دستخط نہیں فرمائے، جس کے خمیازے کے طور پر قید بامشقت کی سزا جھیلنی پڑی۔
اتباعِ شریعت کے اسی جذبہ کا ایک اور نمونہ حضرت شیخ الہند اور حضرت شیخ الاسلام کی مالٹا سے رہائی کے بعد دیوبند پہنچنے کے بعد سامنے آیا، حضرت شیخ الہند اور ان کا پورا گھرانہ حضرت مدنی کا عاشق تھا، حضرت مدنی کی استاذ سے محبت، عقیدت اور خدمت وایثار نے حضرت شیخ الہند اور ان کی اہلیہ کے دل میں حضرت مدنی کے لئے بے انتہاء محبت پیدا کردی تھی، حضرت شیخ الہند کی اہلیہ اپنے بڑھاپے کے اس دور میں اِسی غلبۂ محبت کی وجہ سے حضرت مدنی کو پیار کرنے اور پردہ نہ کرنے کی بات بار بار فرماتی تھیں ، اس پرحضرت شیخ الہند نے بڑے رقت آمیز لہجے میں فرمایا کہ:
’’اگر میرا بیٹا ہوتا تو اتنی خدمت نہیں کرسکتا تھا، میرا بھی دل نہیں چاہتا کہ تم پردہ کرو، مگر یہ سوچ لو کہ شریعت حقہ کے خلاف ہے، تم کو گناہ ہوگا، حضرت کی اہلیہ بہت دین دار تھیں ، اپنے ارادے سے خوفِ خدا کی وجہ سے ہٹ گئیں ۔ (ملاحظہ ہو: تذکرۂ شیخ مدنی ۱۱۲)
ہندوستان کی تحریک آزادی کے روحِ رواں حضرت شیخ الہند تھے، آپ ہی کی للہیت اور جہد وعمل کے طفیل یہ تحریک ہر جگہ پھیل گئی تھی، اس تحریک کے علم بردار اگرچہ مسلمان ہی تھے؛ لیکن برادرانِ وطن بھی اس میں شامل تھے، تحریک میں غالب عنصر مسلمانوں کا تھا، اس لئے حضرت شیخ الہند نے غیرمسلموں کے ساتھ یہ اشتراکِ عمل گوارا فرمایا؛ لیکن حضرت کو ہمہ وقت یہ فکر رہتی تھی کہ غیروں کے ساتھ یہ اشتراک مسلمانوں کے ا پنے طرز معاشرت اور مذہبی تشخصات وامتیازات وشعائر پر مؤثر نہ ہو، اسی دوران کسی مقام پر یہ بات سامنے آئی کہ غیروں سے خیرسگالی کے اظہار کے طور پر مسلمان اس سال عیدالاضحی کے موقع پر گائے کی قربانی نہیں