مانگتے ہیں ، پھر اللہ سوال کرتا ہے کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں پروردگار بخدا! انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا ہے، پھر اللہ فرماتا ہے کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو جنت کے لئے ان کی حرص وطمع اور طلب ورغبت کہیں زیادہ ہوتی، پھر اللہ پوچھتا ہے کہ وہ بندے کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جہنم سے پناہ مانگتے ہیں ، پھر اللہ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں بخدا انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا، پھر اللہ پوچھتا ہے کہ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو ان کی حالت کیا ہوتی؟ فرشتے کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے دوزخ کو دیکھ لیا ہوتا تو وہ جہنم سے بہت زیادہ دور بھاگتے اور بے انتہاء خوف کرتے (یعنی جہنم میں جانے والے گناہوں سے مکمل طور پر اجتناب کرتے) پھر اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میں تم کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے، یہ سن کر ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ذکر کرنے والوں میں فلاں شخص ذکر کرنے والا نہیں ہے، وہ تو اپنی کسی ضرورت سے آیا تھا، پھر وہ وہیں ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھ گیا، وہ اس مغفرت کی بشارت کا مستحق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے فرماتا ہے کہ اہل ذکر کا ہم نشین بے نصیب نہیں ہوتا، یعنی خالی ہم نشینی ہی سے اس شخص کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ ذکر الٰہی اور اہل ذکر کی رفاقت اور معیت اور ہم نشینی سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔
حافظ ابن حجرؒ کے بقول اس حدیث میں مجالس ذکر سے مراد وہ مجالس ہیں جو تسبیح، تحمید، تکبیر، تلاوتِ قرآن، دعائے خیر، مذاکراۂ حدیث وعلوم شرعیہ پر مشتمل ہوں ۔ اور ایسی