قُلْتُ: أَنَا، کَمَا قَالَہٗ، قَالَ: إِنَّکَ عَلَیْہِ - أَوْ عَلَیْہَا - لَجَرِئٌ! قُلْتُ: فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِیْ أَہْلِہٖ وَمَالِہٖ وَوَلَدِہٖ وَجَارِہٖ، یُکَفِّرُہَا الصَّلاَۃُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَۃُ وَالأَمْرُ وَالنَّہْیُ۔
ترجمہ: ہم ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے کہ انہوں نے ہم سے پوچھا کہ تم میں سے کسی شخص کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے سلسلہ میں ارشاد فرمائی ہے، میں نے کہا کہ ہاں مجھے بالکل اسی طرح یاد ہے جس طرح اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا ہے (یعنی وہ حدیث بے کم وکاست میرے حافظے میں موجود ہے) حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ اچھا تم وہ حدیث بیان کرو، تم روایت حدیث میں بہت دلیر ہو، (یعنی تم فتنوں کے سلسلہ میں اللہ کے رسول سے بلاتردد دلیری کے ساتھ باتیں معلوم کرلیا کرتے تھے؛ اس لئے تمہیں اس سلسلہ میں حدیثیں زیادہ یاد ہیں ) جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہو اسے بیان کرو، میں نے کہا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی کا فتنہ (آزمائش) اس کے اہل وعیال میں ہے، اس کے مال میں ہے، اس کے نفس میں ہے، اس کی اولاد میں ہے، اور اس کے ہمسائے میں ہے، اس کے اِس فتنہ کو (اور فتنہ کے سبب سے جس گناہ کا وہ مرتکب ہوتا ہے اس کو) نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دور کردیتے ہیں ۔
آگے حدیث کا مضمون تفصیلی ہے؛ لیکن ہمارا مدعا اسی ٹکڑے سے ثابت ہورہا ہے، جو مذکور ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اہل وعیال، مال دولت، نفس واولاد اور ہمسایہ ومتعلقین کی وجہ سے