قُلْتُ: بِأَحَبِّ الأَعْمَالِ إِلیَ اللّٰہِ، فَسَکَتَ، ثُمَّ سَأَلْتُہٗ فَسَکَتَ، ثُمَّ سَأَلْتُہُ الثَّالِثَۃَ، فَقَالَ: سَأَلْتُ عَنْ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ لِلّٰہِ، فَإِنَّکَ لاَ تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً إِلاَّ رَفَعَکَ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً، وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیْئَۃً، قَالَ مَعْدَانُ: ثُمَّ لَقِیْتُ اَبَا الدَّرْدَائِ فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ لِیْ مِثْلَ مَا قَالَ لِیْ ثَوْبَانُ۔ (مسلم شریف)
ترجمہ: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان سے ملاقات کرکے پوچھا کہ آپ مجھے اس عمل کے بارے میں بتائیے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل فرمادے، اس پر حضرت ثوبان خاموش رہے، تو میں نے دوبارہ سوال کیا، مگر وہ خاموش رہے، پھر میں نے سہ بارہ سوال کیا تو حضرت ثوبان نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ تم زیادہ سے زیادہ بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہونے کا التزام کرو؛ کیوں کہ تم جو سجدہ بھی کروگے اللہ اس کی بدولت تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا، اور ایک گناہ مٹادے گا۔ حضرت معدان کا بیان ہے کہ پھر میں نے حضرت ابوالدرداء سے ملاقات کی اور یہی سوال کیا تو انہوں نے وہی جواب دیا جو حضرت ثوبان نے دیا تھا۔
اس حدیث شریف سے واضح ہورہا ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کا عمل گناہوں کی بخشش کا اہم سبب ہے، اور ایسا اس لئے ہے کہ جب بندہ سجدہ ریز ہوتا ہے اور اپنی پیشانی زمین پر ٹیک دیتا ہے، تو وہ غایت تذلل وعبودیت اور بے انتہاء تواضع وفروتنی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا کہ: