وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا، أَلاَ تُحِبُّوْنَ أَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (النور: ۲۲)
ترجمہ: تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کی مدد نہ کریں گے، انہیں معاف اور درگذر کردینا چاہئے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے، اللہ بہت مغفرت فرمانے والا بہت مہربان ہے۔
یہ آیت اصلاً حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، حضرت مسطح بن اثاثہ مطلبی قریشی ایک صحابی تھے اور حضرت صدیق اکبر کے خاص عزیز (آپ کی خالہ زاد بہن کے فرزند) بھی تھے، وہ اپنی سادہ دلی کی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقوں کی طرف سے برپا کئے گئے طوفانِ تہمت زنا میں شریک ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت مسطح کی ناداری پر ترس کھاکر اکثر ان کی مدد بھی فرماتے تھے، اب غصہ آیا تو قسم کھابیٹھے کہ آج سے امداد موقوف، اِس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ اللہ کی مغفرت نہیں چاہتے، اگر چاہتے ہو تو عفو ودرگذر کو شعار بناؤ، چناں چہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی امداد پھر سے جاری کردی، اور پہلے سے زیادہ خیال کرنے لگے۔
اس آیت کا واضح پیغام یہی ہے کہ بندگانِ خدا کے ساتھ عفو ودرگذر کا سلوک، اللہ کی مغفرت اور بخشش کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
دوسری آیت میں فرمایا گیا:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلاَدِکُمْ عَدُوّاً