Deobandi Books

رپورٹس

ن مضامی

63 - 86
اندرون سندھ کا سفر
علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ نے مختلف مواقع پر تقاضہ کیا کہ میں خیر پور میرس میں ان کے ادارہ جامعہ حیدریہ میں حاضری دوں۔ متعدد بار وعدہ بھی کیا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ان کے شہادت کے بعد یہ تقاضہ عزیز محترم محمد یونس قاسمی کی طرف سے جاری رہا، مگر ہر کام کا ایک وقت قدرت کی طرف سے مقرر ہوتا ہے اس لیے یہ حاضری مؤخر ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ گزشتہ دنوں کراچی سے واپسی پر ایک دن کا کچھ حصہ جامعہ حیدریہ میں گزارنے کا موقع مل گیا۔ کراچی سے ڈائیوو بس کے ذریعہ سکھر پہنچا تو مولانا اسد اللہ اپنے رفقاء کے ہمراہ ٹرمینل پر موجود تھے اور یہ پہلے سے طے تھا کہ پہلے جامعہ اشرفیہ جائیں گے اور جامعہ کے سابق ناظم مولانا خلیل احمد بندھانیؒ کی وفات پر تعزیت و دعا ہوگی۔ مولانا قاری خلیل احمدؒ میرے پرانے رفقاء اور دوستوں میں سے تھے، مختلف دینی تحریکات میں رفاقت رہی، کئی بار سکھر ان کے پاس آنا ہوا اور بیسیوں محافل و مجالس میں ان کے ہمراہ شرکت ہوئی۔ مدرسہ اشرفیہ کے ناظم ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی جامع مسجد بند روڈ کے خطیب تھے۔ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کے خصوصی تلامذہ میں سے تھے، شعلہ نوا خطیب تھے اور دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ جامعہ اشرفیہ سکھر میں حاضری ہوئی، مرحوم کے فرزند مولانا عقیل احمد، جامعہ اشرفیہ کے سرگرم بزرگ ڈاکٹر حق نواز اور دیگر احباب سے تعزیت کی اور حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے لیے دعائے مغفرت کی۔
اس کے بعد بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد الوہاب چاچڑ کے مدرسہ میں حاضری دی، ان سے مختلف امور پر گفتگو کا موقع ملا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے ذکر فرمایا کہ وہ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ مولانا عبد الوہاب چاچڑ سندھ کے بزرگ اور مفکر علماء کرام میں شمار ہوتے ہیں، گزشتہ چار عشروں سے سندھی زبان میں ماہنامہ ’’شریعت‘‘ پابندی کے ساتھ شائع کر رہے ہیں اور اہل حق کی ترجمانی میں مصروف ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اب سے ربع صدی قبل جب ہم نے گوجرانوالہ سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا اجراء کیا جو بحمد اللہ تعالیٰ تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے تو اس کے لیے ڈیکلریشن کے حصول کے ایک مرحلہ میں ہم سے یہ کہا گیا کہ سکھر سے ماہنامہ ’’شریعت‘‘ کے نام سے ایک پرچہ پہلے سے شائع ہو رہا ہے اس لیے اس نام سے دوسرے پرچے کا ڈیکلریشن نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے عرض کیا کہ وہ ’’شریعت‘‘ ہے جبکہ ہم ’’الشریعہ‘‘ کے نام سے جریدہ شائع کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری یہ تکنیک کامیاب رہی اور ’’الف لام‘‘ کے اضافہ سے ہمیں ڈیکلریشن مل گیا۔ مولانا محترم اس پر محظوظ ہوئے اور دعاؤں سے نوازا۔
سکھر کے ساتھ ٹھیری میں سندھ کے قدیم ترین مدرسہ ’’مدرسہ الہدیٰ‘‘ میں بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ دینی ادارہ 1902ء میں قائم ہوا تھا اور مخدوم العلماء حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ بھی اس میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ اس مدرسہ کی اپنی ایک تاریخ ہے جو مستقل تذکرہ کی متقاضی ہے۔ مگر اس میں سے اپنے ذوق کے مطابق سردست صرف ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ اب سے ایک صدی قبل 1336ھ میں دارالہدیٰ کے بانی حضرت مولانا حبیب اللہؒ کی سربراہی میں اس دینی درسگاہ کے لیے جو نصاب طے کیا گیا تھا اس میں درجہ عربی کے چار درجوں کے لیے جغرافیہ اور تاریخ کے مضامین مستقل طور پر شامل کیے گئے تھے۔ ہندوستان، یورپ اور دنیا کے جغرافیہ اور تاریخ کو مختلف مراحل میں نصاب کا حصہ بنایا گیا تھا اور اس کے لیے متعدد کتب پڑھائی جاتی تھیں۔ مگر اس کے ایک سو سال کے بعد اب ہم اپنے دینی مدارس میں اس الجھن کا شکار ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم کے نصاب میں جغرافیہ اور تاریخ کو شامل کرنا درست بھی ہے یا نہیں۔ البتہ کل کے اخبارات میں یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم نے دینی مدارس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عصری تعلیم کو اعلیٰ معیار کے ساتھ اپنے تعلیمی نصاب و نظام کا حصہ بنائیں اور یہ عندیہ دیا ہے کہ جامعہ دارالعلوم میں آئندہ ایک معیاری کالج قائم کیا جائے گا۔ اس پر اس لحاظ سے بھی خوشی ہوئی کہ اب سے ربع صدی قبل جب ہم نے گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ کالج کے نام سے باقاعدہ کالج قائم کیا تھا تو ہمیں اپنے دونوں بزرگوں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی عملی سرپرستی تو حاصل تھی مگر ملک کے اکثر و بیشتر حصوں میں ہماری اس کاوش کو شکوک و شبہات اور اعتراضات و تنقیدات کی دھند نے گھیر رکھا تھا۔ یہ کالج اب بحمد اللہ تعالیٰ جامعۃ الرشید کراچی کی گوجرانوالہ شاخ کا حصہ بن گیا ہے اور ہماری اس ’’فقیرانہ صدا‘‘ کی گونج دینی تعلیمی نظام کے اعلیٰ ایوانوں میں بھی سنائی دینے لگی ہے، فالحمد اللہ علیٰ ذٰلک۔
دارالہدیٰ ٹھیڑی سے فارغ ہو کر خیر پور پہنچے جہاں مولانا اسد اللہ نے مرکزی جامع مسجد میں ایک دینی نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس میں اسلامی رفاہی ریاست کے عنوان پر مختصر بات کی۔ اگلے روز جامعہ حیدریہ خیر پور میں دورہ حدیث اور درجہ تخصص کے طلبہ کے ساتھ دو نشستوں میں دینی جدوجہد کے عصری تقاضوں اور سنی شیعہ کشمکش کی معروضی صورت حال کے بعض پہلوؤں پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ جبکہ مولانا ثناء اللہ حیدری، مولانا عبد الجبار اور دیگر علماء کرام سے مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اسی روز شام کو پیر جو گوٹھ جانے کا پروگرام بن گیا۔ مولانا اسد اللہ اور مولانا عبد الجبار کے ہمراہ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کے سرخیل حضرت مولانا شاہ محمد راشد رحمہ اللہ تعالیٰ کی خانقاہ میں حاضری دی جن کی نسبت سے ہم راشدی کہلاتے ہیں۔ بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کی اور خانقاہ کی عظیم لائبریری میں کچھ لمحات گزارے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ کتب کے علاوہ سینکڑوں قلمی مخطوطات اور تاریخی نوادرات موجود ہیں، ان کی ایک جھلک دیکھی۔ ہم پیر جو گوٹھ کے بازاروں میں سے گزر رہے تھے مگر میرا دماغ تاریخ کے جھروکوں سے اس دور کا نظارہ کر رہا تھا جب حضرت سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جہاد کے لیے پشاور جاتے ہوئے یہاں رکے تھے، حضرت پیر پگاراؒ کے مہمان تھے اور پھر اپنے خاندان کے بچوں اور خواتین کا کچھ حصہ یہاں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ خاندان جس علاقہ میں قیام پذیر ہوئے وہ سالار محلہ کے نام سے اب بھی آباد ہے۔ پھر میری چشم تصور نے پیر جو گوٹھ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے اس دور کا بھی نظارہ کیا جب پاکستان کے قیام سے چند سال قبل برطانوی شاہی فضائیہ نے پیر جو گوٹھ کے اس مرکز کو جو جنگ آزادی کا سندھ میں سب سے بڑا مرکز تھا بمباری کر کے تباہ کیا تھا۔ میری نظروں کے سامنے راشدی خاندان کے بزرگوں کے مزارات تھے مگر کانوں میں برطانوی فضائیہ کے طیاروں کی بمباری کی گھن گرج مسلسل سنائی دے رہی تھی۔
یہ عجیب اتفاق ہوا کہ جب خانقاہ راشدیہ کی لائبریری کے معائنہ رجسٹر میں اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے تاریخ لکھنا چاہی تو یاد آیا کہ آج 6 مئی ہے جو شہدائے بالا کوٹ کا یوم شہادت ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے تاثرات میں اس بات کا ذکر کیا کہ شہدائے بالاکوٹ کی شہادت کے دن پیر جو گوٹھ میں حاضری کو حسن اتفاق سمجھتے ہوئے اس پر مسرت کا اظہار کرتا ہوں۔ اس طرح سکھر اور خیر پور میں دو دن گزار کر بدھ کو رات 9 بجے اسلام آباد کی طرف پرواز کر گیا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۹ مئی ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغانستان میں طالبان کی حکومت اور برطانیہ کے مسلم دانشور 1 1
3 طالبان کی کامیابی پر دینی حلقوں کا اطمینان 1 2
4 طالبان کی طرف سے اسلام کے نام پر ناقابل قبول اقدامات کا خدشہ 1 2
5 مغربی میڈیا کی جانب سے طالبان کی کردار کشی 1 2
6 چودھویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۔ مسلم پرسنل لاء کا تذکرہ 2 1
7 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد میں ایک نشست 3 1
8 روزنامہ پاکستان کے زیر اہتمام خلافت راشدہ کانفرنس ۲۰۰۲ء 4 1
9 تحریک ختم نبوت کے مطالبات 5 1
10 آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس ۲۰۰۲ء 6 1
11 ’’برصغیرمیں مطالعۂ حدیث‘‘ پر ایک علمی سیمینار 7 1
12 بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام 8 1
13 وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن ۲۰۱۵ء 9 1
14 مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ ۔ الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیں 10 1
15 لاہور میں تین مختلف پروگراموں میں شرکت 11 1
16 کراچی کی سرگرمیاں 12 1
17 اسلام زندہ باد کانفرنس ۲۰۱۳ء کا احوال 13 1
18 وفاق المدارس کا مجوزہ عالمی اجتماع ۲۰۱۴ء 14 1
19 نصاب تعلیم کا ایک جائزہ ۔ الشریعہ اکادمی میں سیمینار 15 1
20 کراچی میں مصروفیت کا ایک دن 16 1
21 اسلام آباد میں چند روز 17 1
22 عشرۂ ختم نبوت ۲۰۱۳ء 18 1
23 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 19 1
24 سمندری کا سفر 20 1
25 مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کا دورہ 21 1
26 تبلیغی جماعت کے ساتھ تین دن 22 1
27 تحریک انسداد سود پاکستان 23 1
28 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 24 1
29 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۳ء کی قراردادیں 25 1
30 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء کا متفقہ اعلامیہ 26 1
31 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے مولانا سید عثمان منصور پوری کے خطابات 27 1
32 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے علماء کرام کے خطابات 28 1
33 شیخ الہند عالمی امن کانفرنس (دیوبند و دہلی) ۲۰۱۳ء 29 1
34 دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء کی تاثراتی نشستیں 30 1
35 ربیع الاول ۱۴۳۵ھ کی سرگرمیاں 31 1
36 ڈیرہ غازی خان کا سفر 32 1
37 لاہور اور کراچی کی سرگرمیاں 33 1
38 راولپنڈی میں ایک دن 34 1
39 سودی نظام کے خلاف جدوجہد ۔ دینی راہ نماؤں کا اجلاس 35 1
40 کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں شرکت 36 1
41 لاہور کی تقریبات میں شرکت 37 1
42 سودی نظام پر بحث 38 1
43 اجتماعات مدارس 39 1
44 دینی تقریبات میں شرکت 40 1
45 ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر 41 1
46 ملکی و قومی مسائل ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 42 1
47 اسلام آباد اور چارسدہ کی سرگرمیاں 43 1
48 اسلام آباد کے گرد و نواح میں سرگرمیاں 44 1
49 تحریک انسداد سود کا اجلاس 45 1
50 آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں ملاقاتیں 46 1
51 موجودہ ملکی صورت حال ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 47 1
52 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۴ء 48 1
53 مطالعۂ قرآن کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۴ء 49 1
54 مسجل تحفظ ختم نبوت کا اجلاس 50 1
55 چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم کا دورہ 51 1
56 سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی سرگرمیوں کا آغاز 52 1
57 سرگودھا، جوہر آباد، قائد آباد، چنیوٹ اور چناب نگر کا سفر 53 1
58 ’’انسداد سود سیمینار‘‘ میں شرکت 54 1
59 قومی ایکشن پلان اور اس کا رد عمل 55 1
60 تحفظ ناموس رسالت ۔ آل پارٹیز کانفرنس لاہور 56 1
61 مجلس علماء اسلام پاکستان کا اجلاس 57 1
62 ششماہی تعطیلات کی سرگرمیاں 58 1
63 چنیوٹ میں تعزیتی ریفرنس 59 1
64 مذہبی رواداری اور علماء کی ذمہ داریاں 60 1
65 دستور پاکستان، تحفظ حرمین ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 61 1
66 کراچی میں تین دن 62 1
67 اندرون سندھ کا سفر 63 1
68 ملی و قومی مسائل ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 64 1
69 مری میں علمی و فکری نشستیں 65 1
70 یوم دفاع اور یوم تحفظ ختم نبوت کی تقریبات 66 1
71 حالات حاضرہ ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 67 1
72 تحریک انسداد سود کا اجلاس 68 1
73 دینی جدوجہد کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم 69 1
74 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۵ء 70 1
75 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس ۔ حالات حاضرہ کا جائزہ 71 1
76 عالمی بین المذاہب کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۵ء 72 1
77 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۵ء 73 1
78 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 74 1
79 ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور مذہبی طبقات کا رد عمل 75 1
80 تین دن مغربی روٹ پر 76 1
81 ترکی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ایک اجلاس 77 1
82 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 78 1
83 ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس 79 1
84 مذہبی منافرت کا سدباب ۔ قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس 80 1
85 تبلیغی سہ روزہ اور حضرت سندھیؒ کی یاد میں ایک مجلس 81 1
86 راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کا سفر 82 1
87 انسدادِ سود قومی کنونشن 83 1
88 سودی نظام کا شکنجہ اور ’’عذر لنگ‘‘ 84 1
89 جنوبی پنجاب کا سفر 85 1
90 فضلاء کرام کے چند تربیتی اجتماعات میں شرکت 86 1
Flag Counter