رپورٹس |
ن مضامی |
|
شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے مولانا سید عثمان منصور پوری کے خطابات ’’شیخ الہند عالمی امن کانفرنس‘‘ کی مختلف نشستوں میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے اظہار خیال کیا اور رام لیلا میدان کے کھلے جلسے میں خطبۂ صدارت بھی پیش فرمایا۔ راقم الحروف کے خیال میں ان کی گفتگو سب سے زیادہ فکر انگیز تھی۔ انہوں نے اپنے مختلف خطابات میں نہ صرف علماء کرام کو حضرت شیخ الہندؒ کے مشن اور پروگرام سے متعارف کرایا بلکہ عمل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت شیخ الہندؒ اور دیگر بزرگوں کا صرف تذکرہ کافی نہیں ہے بلکہ موجودہ حالات میں ان سے راہ نمائی حاصل کرنا، ان کے افکار و تعلیمات کے فروغ کی محنت کرنا اور اس کے لیے عزم و عمل کے جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنا اور بڑھتے رہنا بھی ضروری ہے۔ ان کی تحریک پر متفقہ اعلامیہ کو محض اعلامیہ کی بجائے عزم و عہد میں تبدیل کیا گیا اور کانفرنس میں شریک علماء کرام اور کارکنوں سے وعدہ لیا گیا کہ وہ اس اعلامیہ میں بیان کیے گئے خطوط کی روشنی میں عملی محنت کریں گے۔ مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے مختلف خطابات کے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور ان کے ضروری پہلوؤں کی وضاحت کی۔حضرت شیخ الہندؒ کے ایک اہم خطاب کا اقتباس اور صدر جمعیۃ علماء ہند کے خطبہ صدارت کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اقتباس از خطبہ صدارت حضرت شیخ الہندؒ ، بہ موقعہ اجلاس تاسیسی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی منعقدہ 29 اکتوبر 1920ء علی گڑھ۔ ’’میں خیال کرتا ہوں کہ میری قوم اس وقت فصاحت و بلاغت کی بھوکی نہیں ہے۔ اور نہ اس قسم کی عارضی مسرتوں سے اس کے درد کا اصلی داماں ہو سکتا ہے؛ اس لیے ضرورت ہے ایک قائم و دائم جوش کی، نہایت صابرانہ ثبات قدمی کی، دلیرانہ مگر عاقلانہ طریق عمل کی، اپنے نفس پر قابو پانے کی غرض سے ایک پختہ کار بلند خیال اور ذی ہوش محمدی بننے کی۔ اے فرزندان توحید! میں چاہتا ہوں کہ آپ انبیاء و مرسلین اور ان کے وارثوں کے راستے پر چلیں اور جو لڑائی اس وقت شیطان کی ذریت اور خدائے قدوس کے لشکروں میں ہو رہی ہے اس میں ہمت نہ ہاریں اور یاد رکھیں کہ شیطان کے مضبوط سے مضبوط آہنی قلعے خداوند قدیر کی امداد کے سامنے تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں۔ کامیابی کا آفتاب ہمیشہ مصائب و آلام کی گھٹاؤں کو پھاڑ کر نکلا ہے۔الم، احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنّا وھم لا یفتنون o ولقد فتنّا الذین من قبلھم فلیعلمن اللّٰہ الذین صدقوا ولیعلمن الکاذبین o (عنکبوت : ۲۔۳) ترجمہ: ’’کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے، اور ان کو جانچ نہ لیں گے اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے، سو البتہ معلوم کرے گا اللہ جو لوگ سچے ہیں اور البتہ معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔‘‘ خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو خدا کا غضب اور قاہرانہ انتقام ہے، اور دنیا کی متاع قلیل خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے انعامات کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقٰی ولا تظلمون فتیلا۔ (سورہ نساء : ۷۷) ترجمہ: ’’کہہ دے کہ فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیزگار کو اور تمہارا حق نہ رہے گا ایک تاگے کے برابر۔‘‘ مطلق تعلیم کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت اب میری قوم کو نہ رہی، کیوں کے زمانے نے خوب بتلا دیا ہے کہ تعلیم سے ہی بلند خیالی اور تدبر اور ہوش مندی کے پودے نشو و نما پاتے ہیں اور اسی کی روشنی میں آدمی نجات و فلاح کے راستے پر چل سکتا ہے، ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور اغیار کے اثر سے بالکل آزاد ہو۔ کیا باعتبار عقائد و کیا خیالات کے اور کیا باعتبار اخلاق و اعمال کے اور کیا باعتبار اوضاع و اطوار کے اثرات سے پاک ہو۔ ہمارے کالج نمونے ہونے چاہئیں، بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا اس سے پیشتر کہ ہم ان کو اپنا استاذ بناتے۔‘‘ مولانا قاری محمد عثمان کے خطبۂ صدارت کا ایک اہم حصہ: آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ علماء آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں، تاکہ ملک و ملت کی صحیح رہ نمائی ہو سکے۔ ایک متحرک عالم دین کے لیے عوام تک رسائی، دوسروں کے مقابلے زیادہ آسان ہے۔ وہ مختلف حیثیتوں سے عوام کے رابطے میں رہتے ہیں۔ سماج میں عوام کو درپیش مسائل میں مثبت رہ نمائی، وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ ان کی ایک بڑی اہم ذمہ داری اسلام کی بہتر و مثبت شبیہہ کو پیش کرنا بھی ہے۔ دہشت گردی مٹانے کے نام پر؛ خصوصاً 911 کے بعد سے اسلام کی منفی، دہشت گردانہ اور جارحانہ تصویر پیش کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام کی موجودگی میں مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ پر امن زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کے ماننے والے عدم برداشت اور علاحدگی و نفرت کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر اس کے جہاد کے تصور و تعلیم نے پوری کر دی ہے۔ اس پروپیگنڈا سے وہ لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں، جو بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ٹوپی داڑھی والے آدمی کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بچے تک اشارہ کر رہے ہیں کہ اس کا اس خاص گروہ سے تعلق ہے جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں لگا ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلام کے تصور امن اور دہشت گردی کی مذمت پر مبنی تعلیمات کو سامنے لانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اہل علم کو یہ بار بار بتانا ہوگا کہ اسلامی شریعت میں ایک بے قصور انسان کا قتل تمام انسانوں کے قتل کے ہم معنٰی ہے۔ اللہ رب العزت زمین پر فساد کو پسند نہیں کرتا ہے۔ فسادی کبھی جہادی نہیں ہو سکتے۔ اس کو دارالعلوم دیوبند اور دیگر تعلیمی و ثقافتی اداروں اور علمائے کرام کی بڑی تعداد نے موقع بہ موقع ظاہر بھی کیا ہے، لیکن اپنی باتوں کو تسلسل کے ساتھ کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ سے مخفی نہیں ہے کہ مخالفین اپنے پروپیگنڈے کو تقویت دینے کے لیے، اقلیتوں کو درپیش مسائل و واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں غیر مسلم اقلیتوں کا جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ اس تشہیری مہم کا صحیح توڑ اور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک کی اقلیتوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسائل اور مشکلات ہوتی ہیں اور اکثریت جو بذات خود طاقت ہوتی ہے، کی طرف سے نا انصافی و زیادتی ہوتی ہے؛ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں انصاف اور انسانی حقوق اور کمزوروں کی مدد کے سلسلے میں عمومی رجحان کیا ہے۔ گرچہ علماء کا طبقہ براہ راست اقتدار و حکومت میں عموماً دخیل نہیں ہے، تائم وہ اقلیتوں اور دیگر امور سے متعلق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے کی پوزیشن میں یقیناًہے۔ غیر مذاہب اور اقلیتوں کے حقوق کی رعایت کے سلسلے میں اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ یہ کہا جائے کہ غلط فہمیاں عملاً پیدا کی گئی ہیں۔ بہت سے ممالک جیسے ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اقلیت کا مسئلہ کسی ایک مذہبی اکائی کا نہیں ہے؛ بلکہ یہ عالمی نوعیت کا مسئلہ ہے، کوئی کہیں اقلیت میں ہے، کوئی کہیں، ہندوستانی مسلمان آئین ہند کے تحت، بحیثیت اقلیت کے اپنے حقوق و اختیارات کے حصول کے لیے برابر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اگر عالمی طور پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ و رعایت کے سلسلے میں ماحول تیار ہو جاتا ہے تو سب جگہوں کی اقلیتوں کے لیے جدوجہد اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی راہ آسان ہو جائے گی۔ سماج میں امن کے قیام اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں پڑوسی؛ خصوصاً غیر مسلم پڑوسی کے حقوق کی پاسداری و رعایت بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلامی شریعت میں ہر قسم کے پڑوسی کا خیال رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسا لگتا تھا کہ پڑوسی کو وراثت میں شامل کر دیا جائے گا۔ پڑوسی کا دائرہ بہت وسیع ہے، جس طرح پڑوسی، گھر، محلہ اور سفر کا ہوتا ہے، اسی طرح ہر شہر، ضلع، ریاست اور ملک کے لحاظ سے بھی پڑوسی ہوتا ہے۔ اگر شریعت کے مطابق تمام قسم کے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بنا کر اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو سماج سے فساد، تخریبی کاری اور بد امنی ختم ہو سکتی ہے۔ آج ایک دوسرے کے پڑوسی ممالک میں بہتر تعلقات نہ ہونے کے سبب فوج اور اسلحہ جات کی خریداری پر حد سے زیادہ مالی صرفہ آرہا ہے اور نتیجے میں بہت سے اقتصادی، تعلیمی و تعمیری کام مطلوبہ سطح پر نہیں ہو پاتے۔ پڑوسیوں کے معاملے میں مسلم، غیر مسلم کے درمیان شرعی و اخلاقی لحاظ سے امتیاز کرنا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ پڑوسی ہونے اور انسانیت کے ناتے بہتر تعلقات اور حسن سلوک ضروری ہے۔ فرقہ وارانہ فساد اور فرقہ پرستی، باہمی تعلقات کی خرابی اور نفرت و تعصب سے پیداوار فروغ پاتی ہے۔ فرقہ وارانہ فساد اور فرقہ پرستی پر کانفرنس کے عنوان کے مد نظر زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ہماری کوشش ان اسباب کو دور کرنے کی ہونی چاہیے، جو فرقہ وارانہ نفرت و تشدد، فساد اور فرقہ پرستی کو جنم اور بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلکی تشدد کو بھی ان اسباب سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ فسادات جہاں مذہب و فرقہ کے نام پر کیے جاتے ہیں، وہیں ایک ہی مذہب کے افراد کی طرف سے مسلکی اختلافات کو حد سے باہر لے جانے کے سبب بھی فسادات ہوتے ہیں۔ بے شک مختلف مکاتب فکر والے اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں، لیکن سماج کے امن میں خلل ڈالنے والے پر تشدد مسلکی اختلافات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مزید یہ کہ مشترک مسائل میں مسلکی اختلافات کے باوجود متحدہ جدوجہد کی پوری گنجائش ہے۔ اس لیے مل جل کر مشترک امور کے لیے اتحاد و اتفاق کے نکات نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس اہم کانفرنس کے موقع پر ایک دو اور ایسی ضروری باتوں پر بھی شرکاء کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو بہتر معاشرہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں ایسے بین مذاہبی مکالمات و مذاکرات بہت ہو رہے ہیں جن میں ایسے امور بھی زیر بحث آتے ہیں جو اختلافات کے کئی پہلو رکھتے ہیں؛ لیکن کچھ مشترک مسائل ایسے بھی ہیں جن پر اتفاق پایا جاتا ہے، صالح معاشرہ کی تشکیل میں تعاون و اشتراک اور عورتوں، بچوں کے حقوق کی حفاظت و رعایت بھی انہیں متفق علیہ اور مشترک باتوں میں سے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن کے غلبے، جنسی آزادی اور بے راہ روی کی وجہ سے عورتوں، بچوں کی زندگی اور عزت بھیانک طریقے سے پامال ہو رہی ہے۔ سماج میں فحاشی کے سیلاب نے ان کو آزادی دینے کے بجائے غیر محفوظ بنا دیا ہے اور مختلف طریقوں سے جنسی اور جسمانی استحصال ہو رہا ہے۔ شراب سے اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ پوری دنیا میں یوم اطفال اور یوم خواتین منائے جاتے ہیں اور ان کو سماج میں طاقت ور بنانے کے لیے مختلف عنوانات سے تحریکات بھی چلتی رہتی ہیں، تاہم ان کی توقیر و تحفظ یقینی ہونے کے بجائے معرض خطر میں ہے۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے کہ قانون، جنسی جرائم کو روکنے اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے، لیکن وہ پوری طرح آدمی کو جرم کے ارتکاب سے روکنے اور صالح معاشرہ کے قیام کے لیے ذہن و دل سے تیار نہیں کر سکتا ہے، اس کے لیے کسی ایسی ہستی کا خوف و تصور ضروری ہے جس سے آدمی کا باطنی رشتہ اور جواب دہی کا احساس وابستہ ہوتا ہے۔ اور یہ کام مذہب کے تصور اور احساس کا ہے۔ مذہب اسلام نے خالق کائنات کے سامنے جزا و سزا کے حوالے سے جواب دہی کے تصور سے اسی طرف توجہ دلائی ہے۔ دیگر مذاہب اور اصلاحی تحریکات سے وابستہ افراد بھی جنسی استحصال، شراب نوشی، تعیش پرستی اور فحاشی کے مضر اثرات کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ان کے خاتمہ اور انسداد میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ کچھ تحریکیں نشہ سے پاک سماج بنانے کے لیے بھی چل رہی ہیں۔ ہم اس کانفرنس کے توسط سے جملہ مذاہب اور مصلحانہ تحریکات سے وابستگان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سماجی و جنسی جرائم کے خلاف ہمارے ساتھ آئیں۔ ہم اس سلسلے کی چلائی جانے والی تمام تحریکات کی حمایت کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون دینے کا یقین دلاتے ہیں، ہم نے چند امور کی طرف، بلا امتیاز مذہب و فرقہ تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے دیگر ضروری مشترک مسائل میں بھی تعاون لینے دینے کا عمل جاری رہے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری کوششوں کے بہتر نتائج مرتب کرے اور عزم و خلوص سے کام کی توفیق مرحمت فرمائے۔ مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اسلام، لاہور تاریخ اشاعت: ۲۲ دسمبر ۲۰۱۳ء