Deobandi Books

رپورٹس

ن مضامی

37 - 86
لاہور کی تقریبات میں شرکت
گزشتہ روز 2 مارچ کو لاہور کی مختلف تقریبات میں حاضری کا موقع ملا۔ مخدوم و محترم حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم نے شاہدرہ میں امامیہ کالونی کے قریب جامعہ اسلامیہ ملیّہ کے عنوان سے ایک علمی و فکری مرکز قائم کر رکھا ہے۔ وہ جب پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہ ادارہ ان کی علمی و فکری سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے۔ قرآن کریم اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ صاحب کے خصوصی علمی، تحقیقی اور فکری ذوق کے حوالہ سے پروگرام ہوتے رہتے ہیں اور ان کا عنوان بھی منفرد ہوتا ہے۔ گزشتہ سال حضرت مجدد الف ثانیؒ کی شخصیت و کردار کے حوالہ سے سالانہ تقریب ہوئی جبکہ اس سال سالانہ تقریب میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی شخصیت کو عنوان بنایا گیا۔ حضرت علامہ صاحب اور شیخ العلماء حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی زید مجدھم کے علاوہ متعدد سرکردہ علماء کرام نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ جامعہ میں قرآن کریم حفظ مکمل کرنے والے 9 حفاظ کی دستار بندی کی گئی۔ اس تقریب میں دستار بندی کی سعادت میں شریک ہونے اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔ میں نے بطور خاص یہ گزارش کی کہ آج کے دور میں جس طرح ’’صوفی اسلام‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ شریعت اسلامیہ کی اہمیت کو کم کرنے اور مسلمانوں کی توجہ شریعت کے احکام و قوانین سے ہٹانے کی عالمی سطح پر کوشش کی جا رہی ہے اس کے پیش نظر اس قسم کی محافل اور حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا تذکرہ وقت کی اہم ضرورت ہے جس کی طرف سب کو توجہ دینی چاہیے۔
صوفیاء کرامؒ کے بارے میں یہ تأثر عام کیا جا رہا ہے کہ چونکہ وہ صرف فرد اور ذات کو اپنی محنت کا ہدف بناتے ہیں اس لیے انہیں سوسائٹی کے عمومی ماحول اور اجتماعیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ سوسائٹی سے الگ تھلگ اور بے پروا ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں، اور اسی وجہ سے مغرب کے اہل دانش اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ ’’صوفی اسلام‘‘ کو فروغ دیا جائے۔ لیکن یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اور اس کے ازالے کے لیے منظم محنت کی ضرورت ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کا یہ کردار سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے لاکھوں افراد کی قلبی و روحانی اصلاح کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ کے لیے مسلسل محنت کی۔ ان کا عمومی درس لوگوں کے عقائد و اخلاق کی اصلاح کے علاوہ معاشرہ کی رسوم و بدعات کے رد اور حکمرانوں کے مظالم پر تنبیہ کے امور پر بھی مشتمل ہوتا تھا۔ وہ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر بغداد میں ایک ظالم شخص کو قاضی مقرر کیا گیا تو حضرت شیخؒ نے اپنے درس میں اس پر سخت احتجاج کیا جس پر خلیفۂ وقت نے اس قاضی کو تبدیل کر دیا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ صوفیاء کرامؒ سوسائٹی کے اجتماعی ماحول اور معاملات سے لا تعلق ہوتے ہیں اور صرف فرد اور ذات کے دائرے میں بند رہتے ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ حضرات صوفیاء کرام رحمہ اللہ تعالیٰ اقتدار کے معاملات میں فریق نہیں بنتے ہیں اور حکمرانی کی کشمکش سے دور رہتے ہیں، جس سے یہ مغالطہ پیدا کیا گیا کہ وہ امت کے اجتماعی مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ اصلاح اور احتساب کے شعبوں میں حضرات صوفیاء کرامؒ کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ وہ معاشرے کے سب سے بڑے مصلح اور محتسب ہوتے ہیں اور ان کا یہ کردار ہمیشہ مؤثر اور ثمر آور رہا ہے۔
مغرب کی نماز کے بعد رائے ونڈ روڈ میں بھوبتیاں کے مقام پر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام ’’محفل تحفظ ختم نبوت‘‘ کا انعقاد ہوا جس میں مولانا قاری محمد رفیق وجھوی اور دارالہدیٰ ماڈل ٹاؤن کے مولانا حافظ محمد رفیق کے ہمراہ حاضری دی۔ اس موقع پر قادیانیوں کے ایک سابق مربی جناب نذیر احمد نے جو کم و بیش دس سال تک قادیانیوں کی تبلیغ کا کام کرتے رہے ہیں، اپنے قبول اسلام کا واقعہ سنایا اور قادیانیوں کو دعوت دی کہ وہ حقیقت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور باطل عقائد سے توبہ کر کے دامنِ اسلام میں پناہ لیں۔
عشاء کے بعد مسلم ٹاؤن میں مجلس احرار اسلام پاکستان کی سالانہ ’’شہدائے ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری بڑھاپے اور علالت کے باوجود جس ہمت و حوصلہ کے ساتھ قافلۂ احرار کی قیادت کر رہے ہیں وہ آج کے نوجوانوں کے لیے یقیناًمشعل راہ ہے۔ مجلس احرار اسلام کے پروگراموں میں حاضر ہو کر ذہن میں ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جو ذہنی اور فکری ’’فریشمنٹ‘‘ سے کم نہیں ہوتیں۔ پیر سید کفیل شاہ بخاری اور حاجی عبد اللطیف چیمہ اپنے رفقاء کی ٹیم کے ساتھ قافلہ کی رونقوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں جس سے وضعداری کا مفہوم ذہن میں تازہ رہتا ہے۔
چیمہ صاحب نے اپنے خطاب میں ایک تازہ اخباری خبر کا ذکر کیا کہ امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے قادیانیوں کے ’’حقوق‘‘ کی پاسداری کے لیے نئے سرے سے کام کرنے کا عزم کیا ہے او اس کے لیے ایک نیا فورم قائم کر کے پاکستان، انڈونیشیا، اور سعودی عرب سمیت مختلف ممالک میں قادیانیوں کے ’’خود ساختہ حقوق‘‘ کو تحفظ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ میں نے اس پر اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ یہ نئی بات نہیں ہے اور تب سے ہم یہ باتیں سنتے آرہے ہیں جب منیر انکوائری کمیشن میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین مرحوم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا اور چودھری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کے منصب سے ہٹا دیا گیا توا مریکہ ہماری گندم بند کر دے گا۔ قادیانی گروہ اپنے قیام کے وقت سے برطانوی استعمار اور پھر امریکی استعمار کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس لیے عالمی استعمار نے ہر دور میں اس کردار کے مفادات کو سپورٹ کیا ہے اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کی پشت پناہی کی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔
خود میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی برس قبل کھاریاں کے گاؤں ’’چک سکندر‘‘ میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنازعہ کی نوبت قتل و قتال تک پہنچ گئی اور عدالتوں میں مقدمات کا سلسلہ چل نکلا تو لاہور کی ایک تقریب میں اس وقت کے امریکی قونصلیٹ جنرل رچرڈ مکی نے خود مجھ سے اس تنازعہ کے بارے میں گفتگو کی اور جب میں نے دریافت کیا کہ آپ کو ایک دور دراز کے گاؤں کے اس تنازعہ سے کیا دل چسپی ہے، تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی احمدی کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے بارے میں واشنگٹن مجھ سے پوچھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟
لیکن میں آپ حضرات کو یقین دلاتا ہوں کہ امریکہ ہو، یورپی یونین ہو، اقوام متحدہ ہو یا ایمنسٹی انٹرنیشنل، ان سب کی تمام تر کوششوں کے باوجود قادیانی گروہ پاکستان میں اپنے خود ساختہ حقوق کو منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اس مسئلہ پر پوری قوم متفق ہے کہ قادیانیوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں ہمیشہ غیر مسلم ہی شمار ہوں گے اور عالمی سطح پر وہ جس قدر چاہے لابنگ کر لیں پاکستان میں وہ اسلام کے ٹائٹل کے ساتھ اور مسلمان کے عنوان کے ساتھ معاشرتی حیثیت حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان کا لیے صحیح راستہ صرف یہ ہے کہ وہ یا تو باطل عقائد سے توبہ کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہو جائیں اور اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو غیر مسلم اقلیت کی حیثیت کو ایک حقیقت واقعہ سمجھ کر قبول کر لیں۔ اس کے سوا قادیانیوں کے لیے کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۴ مارچ ۲۰۱۴ء (غالباً‌)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغانستان میں طالبان کی حکومت اور برطانیہ کے مسلم دانشور 1 1
3 طالبان کی کامیابی پر دینی حلقوں کا اطمینان 1 2
4 طالبان کی طرف سے اسلام کے نام پر ناقابل قبول اقدامات کا خدشہ 1 2
5 مغربی میڈیا کی جانب سے طالبان کی کردار کشی 1 2
6 چودھویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۔ مسلم پرسنل لاء کا تذکرہ 2 1
7 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد میں ایک نشست 3 1
8 روزنامہ پاکستان کے زیر اہتمام خلافت راشدہ کانفرنس ۲۰۰۲ء 4 1
9 تحریک ختم نبوت کے مطالبات 5 1
10 آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس ۲۰۰۲ء 6 1
11 ’’برصغیرمیں مطالعۂ حدیث‘‘ پر ایک علمی سیمینار 7 1
12 بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام 8 1
13 وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن ۲۰۱۵ء 9 1
14 مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ ۔ الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیں 10 1
15 لاہور میں تین مختلف پروگراموں میں شرکت 11 1
16 کراچی کی سرگرمیاں 12 1
17 اسلام زندہ باد کانفرنس ۲۰۱۳ء کا احوال 13 1
18 وفاق المدارس کا مجوزہ عالمی اجتماع ۲۰۱۴ء 14 1
19 نصاب تعلیم کا ایک جائزہ ۔ الشریعہ اکادمی میں سیمینار 15 1
20 کراچی میں مصروفیت کا ایک دن 16 1
21 اسلام آباد میں چند روز 17 1
22 عشرۂ ختم نبوت ۲۰۱۳ء 18 1
23 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 19 1
24 سمندری کا سفر 20 1
25 مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کا دورہ 21 1
26 تبلیغی جماعت کے ساتھ تین دن 22 1
27 تحریک انسداد سود پاکستان 23 1
28 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 24 1
29 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۳ء کی قراردادیں 25 1
30 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء کا متفقہ اعلامیہ 26 1
31 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے مولانا سید عثمان منصور پوری کے خطابات 27 1
32 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے علماء کرام کے خطابات 28 1
33 شیخ الہند عالمی امن کانفرنس (دیوبند و دہلی) ۲۰۱۳ء 29 1
34 دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء کی تاثراتی نشستیں 30 1
35 ربیع الاول ۱۴۳۵ھ کی سرگرمیاں 31 1
36 ڈیرہ غازی خان کا سفر 32 1
37 لاہور اور کراچی کی سرگرمیاں 33 1
38 راولپنڈی میں ایک دن 34 1
39 سودی نظام کے خلاف جدوجہد ۔ دینی راہ نماؤں کا اجلاس 35 1
40 کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں شرکت 36 1
41 لاہور کی تقریبات میں شرکت 37 1
42 سودی نظام پر بحث 38 1
43 اجتماعات مدارس 39 1
44 دینی تقریبات میں شرکت 40 1
45 ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر 41 1
46 ملکی و قومی مسائل ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 42 1
47 اسلام آباد اور چارسدہ کی سرگرمیاں 43 1
48 اسلام آباد کے گرد و نواح میں سرگرمیاں 44 1
49 تحریک انسداد سود کا اجلاس 45 1
50 آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں ملاقاتیں 46 1
51 موجودہ ملکی صورت حال ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 47 1
52 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۴ء 48 1
53 مطالعۂ قرآن کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۴ء 49 1
54 مسجل تحفظ ختم نبوت کا اجلاس 50 1
55 چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم کا دورہ 51 1
56 سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی سرگرمیوں کا آغاز 52 1
57 سرگودھا، جوہر آباد، قائد آباد، چنیوٹ اور چناب نگر کا سفر 53 1
58 ’’انسداد سود سیمینار‘‘ میں شرکت 54 1
59 قومی ایکشن پلان اور اس کا رد عمل 55 1
60 تحفظ ناموس رسالت ۔ آل پارٹیز کانفرنس لاہور 56 1
61 مجلس علماء اسلام پاکستان کا اجلاس 57 1
62 ششماہی تعطیلات کی سرگرمیاں 58 1
63 چنیوٹ میں تعزیتی ریفرنس 59 1
64 مذہبی رواداری اور علماء کی ذمہ داریاں 60 1
65 دستور پاکستان، تحفظ حرمین ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 61 1
66 کراچی میں تین دن 62 1
67 اندرون سندھ کا سفر 63 1
68 ملی و قومی مسائل ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 64 1
69 مری میں علمی و فکری نشستیں 65 1
70 یوم دفاع اور یوم تحفظ ختم نبوت کی تقریبات 66 1
71 حالات حاضرہ ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 67 1
72 تحریک انسداد سود کا اجلاس 68 1
73 دینی جدوجہد کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم 69 1
74 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۵ء 70 1
75 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس ۔ حالات حاضرہ کا جائزہ 71 1
76 عالمی بین المذاہب کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۵ء 72 1
77 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۵ء 73 1
78 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 74 1
79 ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور مذہبی طبقات کا رد عمل 75 1
80 تین دن مغربی روٹ پر 76 1
81 ترکی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ایک اجلاس 77 1
82 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 78 1
83 ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس 79 1
84 مذہبی منافرت کا سدباب ۔ قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس 80 1
85 تبلیغی سہ روزہ اور حضرت سندھیؒ کی یاد میں ایک مجلس 81 1
86 راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کا سفر 82 1
87 انسدادِ سود قومی کنونشن 83 1
88 سودی نظام کا شکنجہ اور ’’عذر لنگ‘‘ 84 1
89 جنوبی پنجاب کا سفر 85 1
90 فضلاء کرام کے چند تربیتی اجتماعات میں شرکت 86 1
Flag Counter