Deobandi Books

رپورٹس

ن مضامی

6 - 86
آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس ۲۰۰۲ء
28 مئی 2002ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان کی طلب کردہ ’’آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس‘‘ دینی اور سیاسی راہنماؤں کا ایک اہم اجتماع ثابت ہوئی جس سے قومی سیاست اور دینی جماعتوں کی جدوجہد کے مستقبل کےحوالہ سے بہت سے نئے رجحانات سامنے آئے۔ کانفرنس میں دینی جماعتوں کی بھرپور نمائندگی تھی اور تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات موجود تھے۔ دیوبندی مکتب فکر سے خود مولانا فضل الرحمان کے علاوہ مولانا سمیع الحق، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا محمد حنیف جالندھری، اور مولانا صاحبزادہ عزیز احمد آف کندیاں شریف سمیت بیسیوں سرکردہ حضرات شریک تھے۔ بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ جنرل (ر) کے ایم ظہیر، پیر اعجاز احمد ہاشمی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، انجینئر سلیم اللہ خان اور صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے کی۔ اہل حدیث مکتب فکر کی نمائندگی کے لیے مولانا معین الدین لکھوی، پروفیسر ساجد میر، حافظ زبیر احمد ظہیر، حافظ عبد الرحمان مکی اور عبد القدیر خاموش تشریف فرما تھے۔ جبکہ اہل تشیع کی طرف سے علامہ ساجد نقوی اور علامہ علی غضنفر کراروی نے نمائندگی کی۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی سے جناب سید منور حسن، جناب لیاقت بلوچ، مولانا عبد المالک خان، جمعیۃ اشاعت التوحید و سنہ کی طرف سے مولانا اشرف علی، تنظیم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کے ساتھ ساتھ ملی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی کے راہنماؤں اور آے آر ڈی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔ اس طرح یہ کانفرنس دینی و سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کے ایک اہم اجتماع کی حیثیت اختیار کر گئی۔
آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس کا ایجنڈا ایک نکتہ پر مشتمل تھا کہ حکومت نے مخلوط انتخاب کی آڑ میں ووٹرز فارم سے ’’عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ‘‘ خارج کرنے کا جو اقدام کیا ہے وہ قادیانیوں کو چور دروازے سے مسلمانوں کی صف میں شامل ہونے کا موقع دینے کی کوشش ہے اور دستور کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے حکومت اس فیصلہ کو واپس لیتے ہوئے ووٹرز فارم میں ختم نبوت کے عقیدہ کا حلف نامہ بحال کرے۔ اجلاس کے تمام شرکاء نے اس ایک نکاتی ایجنڈے سے اتفاق کرتے ہوئے مذکورہ مطالبہ کی حمایت کی۔
اس موقع پر صحافی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب سعید آسی نے کانفرنس کے شرکاء کی اس پہلو کی طرف توجہ دلائی کہ ووٹرز فارم سے عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کے مقاصد تو پورے ہو چکے ہیں۔ کیونکہ اس دوران نئے ووٹروں کا اندراج مکمل ہو چکا ہے جو حلف نامہ کے بغیر ہے اور اس طرح جن قادیانیوں نے اپنے ووٹ مسلم ووٹر کے طور پر درج کرانے تھے وہ درج ہو چکے ہیں۔ اب اگر حکومت اس حلف نامہ کو دوبارہ ووٹر فارم میں شامل کرنے کا مطالبہ منظور کر بھی لے تو اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حلف نامہ خارج کرنے کے اقدام کے ذریعہ قادیانی جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ انہوں نے حاصل کر لیے ہیں۔ اس نکتہ کا کانفرنس کے شرکاء نے بطور خاص نوٹس لیا اور کانفرنس کے متفقہ مطالبہ میں اس بات کو شامل کرنے پر متعدد مقررین نے زور دیا کہ حلف نامہ خارج کرنے کے بعد جو نئے ووٹ درج کیے گئے ہیں ان کے اندارج پر نظر ثانی کی جائے اور تحریک ختم نبوت کے قائدین کو اعتماد میں لے کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ ووٹرز فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ دوبارہ شامل کرنے کے علاوہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کا اضافہ بھی ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ موجود ہے تو جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر پاسپورٹ جاری ہوتا ہے اس میں مذہب کا خانہ بڑھانے میں کیا رکاوٹ ہے؟
کانفرنس میں یک نکاتی ایجنڈے کے حوالہ سے طے ہوا کہ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر ووٹرز فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ دوبارہ شامل کیا جائے ورنہ اس کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس تحریک کے لیے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کو دوبارہ متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تحریک کا طریق کار اور دیگر تفصیلات طے کرنے کے لیے آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ’’سٹیئرنگ کمیٹی‘‘ قائم کی گئی جو 6 جون کے فورًا بعد اجلاس کر کے لائحہ عمل طے کرے گی۔ اس یک نکاتی ایجنڈے کے علاوہ کانفرنس میں اور بھی بہت سے امور زیر بحث آئے اور اگرچہ اسٹیج کی طرف سے بار بار توجہ دلائی جاتی رہی کہ گفتگو کو کانفرنس کے ایجنڈے تک محدود رکھا جائے مگر مقررین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف مسائل پر جذبات کا اظہار کیا اور اپنا موقف پیش کیا۔
نوابزادہ نصر اللہ خان نے قادیانیت کا سیاسی پس منظر بیان کیا اور کہا کہ یہ فتنہ انگریزوں نے جہاد کے حوالہ سے مسلمانوں کے عقیدہ اور جذبہ کو کمزور کرنے کے لیے جنم دیا تھا۔ انہوں نے قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کے بہت سے اشعار اور ارشادات کا حوالہ دیا کہ وہ قادیانیت اور اس کی دعوت و تعلیم کو مسلمانوں کے لیے غلامی کا پیغام سمجھتے تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے کہا کہ صرف ختم نبوت کے حلف کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کا پورا دستور سازشوں کی زد میں ہے اور اسے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ 1973ء کا دستور ختم کر دیا گیا تو اس ملک میں نیا دستور نہیں بن سکے گا اور جو دستور بنے گا وہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا دستور نہیں ہوگا۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اصل بات امریکہ کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کی ہے کیونکہ جب تک غلامی کا یہ طوق ہماری گردن سے نہیں اترتا اس قسم کے جزوی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم ان کے حل میں لگے رہیں گے۔ اصل مسئلہ قومی آزادی کی بحالی کا ہے اور ہمیں عالمی استعمار سے مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کے لیے ایک نئی جنگ آزادی کا آغاز کرنا ہوگا۔
راقم الحروف نے اس طرف توجہ دلائی کہ عقیدۂ ختم نبوت کے علاوہ اور مسائل بھی بیرونی دباؤ کی زد میں ہیں:
امریکی کانگریس کی قرارداد کے بعد قادیانیوں کو مسلمانوں کی صف میں دوبارہ شامل کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے جس کی پہلی قسط ووٹرز فارم سے عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامہ کا اخراج ہے،
تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے،
حدود آرڈیننس پر نظر ثانی کےلیے سرکاری کمیٹی نے کام مکمل کر لیا ہے،
خاندانی نظام، نکاح و طلاق اور موروثیت کے قوانین میں رد و بدل کے لیے مسودات تیار ہیں،
اور سودی نظام کے بار ےمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے حوالہ سے اسے معطل کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔
اس لیے دینی حلقوں کو اس صورتحال پر نظر رکھنی چاہیے اور اگر تحفظ ختم نبوت کے فورم سے مناسب نہ ہو تو متحدہ مجلس عمل یا کسی اور فورم سے ان مسائل پر سنجیدہ کام ہونا چاہیے۔
کانفرنس میں شریک ملت پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے نمائندوں نے بہت عمدہ بات کی کہ ختم نبوت کا عقیدہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے اس لیے تحفظ ختم نبوت کا مسئلہ صرف دینی جماعتوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲ جون ۲۰۰۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغانستان میں طالبان کی حکومت اور برطانیہ کے مسلم دانشور 1 1
3 طالبان کی کامیابی پر دینی حلقوں کا اطمینان 1 2
4 طالبان کی طرف سے اسلام کے نام پر ناقابل قبول اقدامات کا خدشہ 1 2
5 مغربی میڈیا کی جانب سے طالبان کی کردار کشی 1 2
6 چودھویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۔ مسلم پرسنل لاء کا تذکرہ 2 1
7 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد میں ایک نشست 3 1
8 روزنامہ پاکستان کے زیر اہتمام خلافت راشدہ کانفرنس ۲۰۰۲ء 4 1
9 تحریک ختم نبوت کے مطالبات 5 1
10 آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس ۲۰۰۲ء 6 1
11 ’’برصغیرمیں مطالعۂ حدیث‘‘ پر ایک علمی سیمینار 7 1
12 بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام 8 1
13 وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن ۲۰۱۵ء 9 1
14 مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ ۔ الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیں 10 1
15 لاہور میں تین مختلف پروگراموں میں شرکت 11 1
16 کراچی کی سرگرمیاں 12 1
17 اسلام زندہ باد کانفرنس ۲۰۱۳ء کا احوال 13 1
18 وفاق المدارس کا مجوزہ عالمی اجتماع ۲۰۱۴ء 14 1
19 نصاب تعلیم کا ایک جائزہ ۔ الشریعہ اکادمی میں سیمینار 15 1
20 کراچی میں مصروفیت کا ایک دن 16 1
21 اسلام آباد میں چند روز 17 1
22 عشرۂ ختم نبوت ۲۰۱۳ء 18 1
23 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 19 1
24 سمندری کا سفر 20 1
25 مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کا دورہ 21 1
26 تبلیغی جماعت کے ساتھ تین دن 22 1
27 تحریک انسداد سود پاکستان 23 1
28 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 24 1
29 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۳ء کی قراردادیں 25 1
30 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء کا متفقہ اعلامیہ 26 1
31 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے مولانا سید عثمان منصور پوری کے خطابات 27 1
32 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے علماء کرام کے خطابات 28 1
33 شیخ الہند عالمی امن کانفرنس (دیوبند و دہلی) ۲۰۱۳ء 29 1
34 دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء کی تاثراتی نشستیں 30 1
35 ربیع الاول ۱۴۳۵ھ کی سرگرمیاں 31 1
36 ڈیرہ غازی خان کا سفر 32 1
37 لاہور اور کراچی کی سرگرمیاں 33 1
38 راولپنڈی میں ایک دن 34 1
39 سودی نظام کے خلاف جدوجہد ۔ دینی راہ نماؤں کا اجلاس 35 1
40 کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں شرکت 36 1
41 لاہور کی تقریبات میں شرکت 37 1
42 سودی نظام پر بحث 38 1
43 اجتماعات مدارس 39 1
44 دینی تقریبات میں شرکت 40 1
45 ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر 41 1
46 ملکی و قومی مسائل ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 42 1
47 اسلام آباد اور چارسدہ کی سرگرمیاں 43 1
48 اسلام آباد کے گرد و نواح میں سرگرمیاں 44 1
49 تحریک انسداد سود کا اجلاس 45 1
50 آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں ملاقاتیں 46 1
51 موجودہ ملکی صورت حال ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 47 1
52 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۴ء 48 1
53 مطالعۂ قرآن کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۴ء 49 1
54 مسجل تحفظ ختم نبوت کا اجلاس 50 1
55 چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم کا دورہ 51 1
56 سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی سرگرمیوں کا آغاز 52 1
57 سرگودھا، جوہر آباد، قائد آباد، چنیوٹ اور چناب نگر کا سفر 53 1
58 ’’انسداد سود سیمینار‘‘ میں شرکت 54 1
59 قومی ایکشن پلان اور اس کا رد عمل 55 1
60 تحفظ ناموس رسالت ۔ آل پارٹیز کانفرنس لاہور 56 1
61 مجلس علماء اسلام پاکستان کا اجلاس 57 1
62 ششماہی تعطیلات کی سرگرمیاں 58 1
63 چنیوٹ میں تعزیتی ریفرنس 59 1
64 مذہبی رواداری اور علماء کی ذمہ داریاں 60 1
65 دستور پاکستان، تحفظ حرمین ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 61 1
66 کراچی میں تین دن 62 1
67 اندرون سندھ کا سفر 63 1
68 ملی و قومی مسائل ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 64 1
69 مری میں علمی و فکری نشستیں 65 1
70 یوم دفاع اور یوم تحفظ ختم نبوت کی تقریبات 66 1
71 حالات حاضرہ ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 67 1
72 تحریک انسداد سود کا اجلاس 68 1
73 دینی جدوجہد کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم 69 1
74 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۵ء 70 1
75 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس ۔ حالات حاضرہ کا جائزہ 71 1
76 عالمی بین المذاہب کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۵ء 72 1
77 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۵ء 73 1
78 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 74 1
79 ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور مذہبی طبقات کا رد عمل 75 1
80 تین دن مغربی روٹ پر 76 1
81 ترکی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ایک اجلاس 77 1
82 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 78 1
83 ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس 79 1
84 مذہبی منافرت کا سدباب ۔ قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس 80 1
85 تبلیغی سہ روزہ اور حضرت سندھیؒ کی یاد میں ایک مجلس 81 1
86 راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کا سفر 82 1
87 انسدادِ سود قومی کنونشن 83 1
88 سودی نظام کا شکنجہ اور ’’عذر لنگ‘‘ 84 1
89 جنوبی پنجاب کا سفر 85 1
90 فضلاء کرام کے چند تربیتی اجتماعات میں شرکت 86 1
Flag Counter