رپورٹس |
ن مضامی |
|
شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے علماء کرام کے خطابات صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری کے علاوہ ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ کی مختلف نشستوں میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن نے تفصیلی گفتگو کی، انہیں پوری کانفرنس میں ’’مہمان خصوصی‘‘ کی حیثیت حاصل تھی اور حالات حاضرہ کے تناظر میں ان کی گفتگو بہت فکر انگیز تھی۔ ہر طبقہ کے لوگوں نے ان کے خیالات کو توجہ کے ساتھ سنا اور انڈیا کے بہت سے اخبارات نے اسے نمایاں طور پر شائع کیا۔ ان کی گفتگو کا زیادہ تر ہدف امن کے قیام کے لیے خلافت کے نظام کی ضرورت اور افادیت کی وضاحت تھا۔ اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نسل انسانی کے لیے جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بھجوائی ہیں ان پر عمل کر کے ہی انسانی سوسائٹی کو امن کی منزل مل سکتی ہے۔ انہوں نے علاقائی امن کے حوالہ سے گفتگو کی اور کہا کہ ایک دوسرے کا احترام اور برابری کی بنیاد پر سلوک امن کی بہتر بنیاد بن سکتا ہے اور امن کے قیام کے لیے انصاف کی فراہمی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ انصاف اور معاشرتی عدل کے بغیر امن کا قیام ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے ہمیں سب سے زیادہ اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ اقوام و ممالک کے درمیان برابر کے احترام کو فروغ دیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، سوشل جسٹس کے قیام کے لیے محنت کریں، اور باہمی تنازعات کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی طرف عملی پیش رفت کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں بھارت کے عوام کے لیے پاکستان کے عوام کی طرف سے یہ پیغام لایا ہوں کہ ہم امن اور باہمی دوستی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے دونوں طرف کا یکساں احترام اور انصاف کی بنیاد پر تعلقات ضروری ہیں۔ اگر کسی ہندو یا دوسرے غیر مسلم کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ خطہ میں کسی مسلمان فرد، طبقے یا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کی بھی مذمت اسی درجہ میں کی جانی چاہیے اور اس کی راہ روکنے میں سب کو تعاون کرنا چاہیے۔ جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی نے اپنے خطابات میں کانفرنس کے مقاصد و اہداف کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور کہا کہ حضرت شیخ الہند کی تعلیمات و افکار کو آج کے حالات کے تناظر میں از سر نو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اسی مقصد کے لیے صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے علاقہ کے تمام ممالک کے علماء کرام سے اپیل کی کہ وہ اپنے بزرگوں کی روایات کو زندہ رکھنے اور حضرت شیخ الہندؒ کے مشن کو آگے بڑھانے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور نئی نسل کو اپنے اکابر کی تعلیمات اور جدوجہد سے واقف کرانے کا اہتمام کریں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری بھی ’’شیخ الہند امن کانفرنس‘‘ کے سرکردہ شرکاء میں سے تھے، انہوں نے نہ صرف مشاورتی سطح پر کانفرنس کو با مقصد بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا بلکہ مختلف نشستوں میں اپنے خطابات کے دوران اس امر کو واضح کیا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اس کا بنیادی پیغام ہی دنیا میں امن و سلامتی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور دینی مدارس پر دہشت گردی کا لیبل غلط طور پر چسپاں کیا جا رہا ہے جو اسلام کے خلاف عالمی استعمار کی سازش ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اس سازش کو پوری طرح سمجھتے ہوئے اسلام اور مدارس کے صحیح کردار اور خدمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے بھی بہت سے فکر انگیز عنوانات پر گفتگو کی اور بطور خاص اس بات پر زور دیا کہ آج کے عالمی ماحول میں اصل فکری اور تہذیبی جنگ آسمانی تعلیمات کو ماننے والوں اور اس کا انکار کرنے والے سیکولر حلقوں کے درمیان ہے۔ اس لیے ہمیں مختلف مذاہب کے ان لوگوں کے ساتھ تعاون کی راہ نکالنی ہوگی جو سیکولر فکر و فلسفہ کے خلاف مذہب اور آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ہمیں اہل مذاہب کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دائروں میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں۔ ہم ان کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں لیکن مذہبی تعلیمات کی معاشرہ میں بالادستی اور سیکولر فلسفہ سے انسانی سوسائٹی کی نجات کے لیے ہم سب کو مشترکہ محنت کرنی چاہیے۔ راقم الحروف نے بھی بعض نشستوں میں معروضات پیش کیں اور کچھ تجاویز تحریری صورت میں دیں، ان کے بارے میں اگلے کالم میں کچھ عرض کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اسلام، لاہور تاریخ اشاعت: ۲۳ دسمبر ۲۰۱۳ء