Deobandi Books

رپورٹس

ن مضامی

15 - 86
نصاب تعلیم کا ایک جائزہ ۔ الشریعہ اکادمی میں سیمینار
۲۲ اپریل ۲۰۱۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع قومی نصاب تعلیم میں اسلامیات کے مضامین اور مواد کو کم کرنے اور نصابِ تعلیم کو مبینہ طور پر سیکولر نصابِ تعلیم کی شکل دینے کے بارے میں بعض اخباری رپورٹوں کا جائزہ لینا تھا۔ ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی نے سیمینار کی صدارت کی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا محمد قاسم، مولانا غلام نبی، مولانا محمد عثمان، حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا محمد فخر عالم، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، پروفیسر حافظ محمد رشید اور راقم الحروف نے بھی گفتگو کی جبکہ مجموعی طور پر اس گفتگو میں مندرجہ ذیل نکات سامنے لائے گئے:
نصاب تعلیم کے حوالے سے جن امور کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ان کے مختلف دائرے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور قومی نصاب تعلیم کس حد تک ملک کی نظریاتی اساس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ دوسرا یہ کہ ہماری قومی تعلیمی ضروریات کیا ہیں اور مذہب و ثقافت کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، سول سروس، ملٹری، معیشت اور دیگر شعبوں کے تقاضوں کو یہ تعلیمی نصاب و نظام کس حد تک پورا کرتا ہے، اور تیسرا یہ کہ موجودہ عالمی تناظر میں ملک و قوم کی بین الاقوامی ضروریات کیا ہیں اور ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پورا کرنے میں یہ قومی نصاب تعلیم کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
اس کے بعد دوسری سطح یہ ہے کہ متعدد حوالوں سے تعلیمی نصاب و نظام کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے جو شکایات وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں اور اس وقت بھی قومی اخبارات میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں، ان کی اصل صورت حال کیا ہے اور ان کے بارے میں اعتدال و توازن کی راہ کیا ہے؟
قومی نصاب تعلیم کے بارے میں اس وقت دو قسم کی کشمکش چل رہی ہے، ایک کشمکش تو مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ دونوں حلقے اس سلسلہ میں اپنی قوت اور اثر و رسوخ کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اب بھی یہ کشمکش عروج پر ہے۔ دوسری کشمکش وفاق اور صوبوں کے درمیان ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد نصابِ تعلیم کا معاملہ صوبوں کے سپرد ہوا ہے جو پہلے وفاق کی ذمہ داری اور اختیار کا حصہ تھا۔ صوبوں کو منتقل ہو جانے کے بعد بھی وفاق ان معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے مگر صوبوں کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی نظام کے معاملات دستور کے مطابق صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں تو انہیں پوری آزادی کے ساتھ اس بارے میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کشمکش کچھ عرصہ تو چلتی رہے گی مگر بالآخر یہ معاملات صوبوں کے دائرہ اختیار میں آجائیں گے۔ ہمیں تعلیمی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
بسا اوقات تبدیلی اور ترمیم کرنے والوں کے ذہنوں میں وہ بات نہیں ہوتی جو اس پر اعتراض کرنے والوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ مثلاً خیبر پختون خواہ کی سابقہ حکومت کے دور میں نویں دسویں کے نصاب سے سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کو نکالنے والوں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے ان سورتوں کو نصاب سے خارج کرنے کی بات نہیں کی بلکہ ترتیب بدلنے کی بات کی ہے کہ اس سطح پر سورۃ الحجرات کی تعلیم زیادہ مناسب ہے اور اس کے اوپر کے درجات میں یعنی انٹرمیڈیٹ کی سطح پر سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اگر فی الواقع ایسی بات ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی افادیت اور موزونیت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے نصاب تعلیم کے بارے میں بین الاقوامی ایجنڈا اور اس کے لیے مسلسل دباؤ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ باخبر حضرات کے مطابق عالمی اداروں کی طرف سے تعلیمی شعبہ میں جو امداد دی جاتی ہے اس کے ساتھ متعین شرائط ہوتی ہیں کہ یہ امداد تعلیمی نصاب و نظام میں حسب شرائط تبدیلیوں کی صورت میں ہی ملے گی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے بھی اربابِ حل و عقد کو بعض تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں، ایسی شرائط کا جائزہ لینا اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان میں سے کونسی شرائط اور تبدیلیاں ہمارے دینی اور قومی تقاضوں سے متصادم ہیں۔ ان کی نشان دہی اور ان کی روک تھام کے لیے قوم کی راہ نمائی اور مناسب تدابیر بھی ضروری ہیں۔
دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالہ سے عصری و قومی تعلیمی ادارے مسلسل اپنی رائے دیتے رہتے ہیں اور دینی مدارس کے وفاقوں کو اپنے تعلیمی نظام و نصاب کے بارے میں قومی تعلیمی اداروں کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔ اسی طرح قومی تعلیمی نظام و نصاب تشکیل دینے والوں کے لیے بھی یہ ضروری قرار دیا جائے کہ وہ تعلیمی نصاب کے دینی پہلوؤں کے حوالہ سے دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لیں اور ان کی مشاورت کے ساتھ یہ معاملات طے کریں تاکہ باہمی اعتماد میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ معاملات بھی صحیح رخ اختیار کر سکیں۔
جب سے پرائیویٹ پبلشرز کی شائع کردہ کتابیں نصاب تعلیم کا حصہ بننے لگی ہیں، اس خلفشار میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑے پبلشرز نے اپنے اپنے تعلیمی بورڈ بنا رکھے ہیں جو کتابیں مرتب کرتے ہیں اور جس کی کتاب سکولوں میں چل جاتی ہے، وہ اس دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں۔ اس سے تعلیمی نصاب میں ہم آہنگی مفقود ہوجاتی ہے، کیونکہ ہر پبلشنگ ادارے کے تعلیمی بورڈ کی اپنی پالیسی اور ذوق ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہر سطح پر مشترکہ تعلیمی کمیٹیوں کا قیام مناسب بات ہوگی۔
اندرونی حلقوں کے مطابق بسا اوقات ملازمین کے بعض ذاتی معاملات کی وجہ سے اس قسم کی شکایات سامنے آتی ہیں اور انہیں اجاگر کیا جاتا ہے، اس لیے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی شکایات کا داخلی پس منظر کیا ہے اور حقیقی صورت حال کیا ہے۔
نصابِ تعلیم کے اسلامی مضامین اور دینی مواد کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین کے مواد کے بارے میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً کائنات کی تخلیق اور ارتقاء اور مغربی فلسفہ کے دوسرے بہت سے پہلوؤں کا ہمارے اعتقاد و ایمان کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور بعض مضامین ایسے پڑھائے جا رہے ہیں جو مسلّمہ اسلامی اعتقادات سے ٹکراتے ہیں جس سے مسلم طلبہ کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے جائزہ میں قومی نصاب تعلیم کے تمام شعبوں کو شامل کرنا چاہیے اور ایسے امور کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں کام ہو رہا ہے اور بہت سے ارباب دانش محنت اور ذہن سازی کر رہے ہیں، ان کے درمیان باہمی رابطہ ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کی محنت اور کام سے استفادہ کر کے ایک مجموعی موقف سامنے لایا جائے اور پھر اس کے لیے مربوط جدوجہد کا لائحہ عمل طے کیا جائے، وغیر ذلک۔
شرکاء کی طرف سے اظہار خیال کے بعد سیمینار میں یہ طے پایا کہ (۱) پروفیسر حافظ عبد الرشید (مرے کالج سیالکوٹ) (۲) مولانا محمد فخر عالم (مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور (۳) جناب علی رضا شیخ ایڈووکیٹ (پریمیئر لاء کالج گوجرانوالہ) پر مشتمل ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا جو پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک، پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی اور حافظ محمد عمار خان ناصر کی نگرانی میں ان امور کا جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ مرتب کرے گا اور اس رپورٹ کی بنیاد پر ملک کے سرکردہ اربابِ علم و دانش اور علمی و فکری اداروں کے ساتھ رابطہ و مشاورت کی کوئی عملی صورت اختیار کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۴ مئی ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغانستان میں طالبان کی حکومت اور برطانیہ کے مسلم دانشور 1 1
3 طالبان کی کامیابی پر دینی حلقوں کا اطمینان 1 2
4 طالبان کی طرف سے اسلام کے نام پر ناقابل قبول اقدامات کا خدشہ 1 2
5 مغربی میڈیا کی جانب سے طالبان کی کردار کشی 1 2
6 چودھویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۔ مسلم پرسنل لاء کا تذکرہ 2 1
7 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد میں ایک نشست 3 1
8 روزنامہ پاکستان کے زیر اہتمام خلافت راشدہ کانفرنس ۲۰۰۲ء 4 1
9 تحریک ختم نبوت کے مطالبات 5 1
10 آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس ۲۰۰۲ء 6 1
11 ’’برصغیرمیں مطالعۂ حدیث‘‘ پر ایک علمی سیمینار 7 1
12 بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام 8 1
13 وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن ۲۰۱۵ء 9 1
14 مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ ۔ الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیں 10 1
15 لاہور میں تین مختلف پروگراموں میں شرکت 11 1
16 کراچی کی سرگرمیاں 12 1
17 اسلام زندہ باد کانفرنس ۲۰۱۳ء کا احوال 13 1
18 وفاق المدارس کا مجوزہ عالمی اجتماع ۲۰۱۴ء 14 1
19 نصاب تعلیم کا ایک جائزہ ۔ الشریعہ اکادمی میں سیمینار 15 1
20 کراچی میں مصروفیت کا ایک دن 16 1
21 اسلام آباد میں چند روز 17 1
22 عشرۂ ختم نبوت ۲۰۱۳ء 18 1
23 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 19 1
24 سمندری کا سفر 20 1
25 مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کا دورہ 21 1
26 تبلیغی جماعت کے ساتھ تین دن 22 1
27 تحریک انسداد سود پاکستان 23 1
28 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 24 1
29 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۳ء کی قراردادیں 25 1
30 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء کا متفقہ اعلامیہ 26 1
31 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے مولانا سید عثمان منصور پوری کے خطابات 27 1
32 شیخ الہند کانفرنس ۲۰۱۳ء سے علماء کرام کے خطابات 28 1
33 شیخ الہند عالمی امن کانفرنس (دیوبند و دہلی) ۲۰۱۳ء 29 1
34 دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء کی تاثراتی نشستیں 30 1
35 ربیع الاول ۱۴۳۵ھ کی سرگرمیاں 31 1
36 ڈیرہ غازی خان کا سفر 32 1
37 لاہور اور کراچی کی سرگرمیاں 33 1
38 راولپنڈی میں ایک دن 34 1
39 سودی نظام کے خلاف جدوجہد ۔ دینی راہ نماؤں کا اجلاس 35 1
40 کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں شرکت 36 1
41 لاہور کی تقریبات میں شرکت 37 1
42 سودی نظام پر بحث 38 1
43 اجتماعات مدارس 39 1
44 دینی تقریبات میں شرکت 40 1
45 ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر 41 1
46 ملکی و قومی مسائل ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 42 1
47 اسلام آباد اور چارسدہ کی سرگرمیاں 43 1
48 اسلام آباد کے گرد و نواح میں سرگرمیاں 44 1
49 تحریک انسداد سود کا اجلاس 45 1
50 آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں ملاقاتیں 46 1
51 موجودہ ملکی صورت حال ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 47 1
52 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۴ء 48 1
53 مطالعۂ قرآن کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۴ء 49 1
54 مسجل تحفظ ختم نبوت کا اجلاس 50 1
55 چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم کا دورہ 51 1
56 سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی سرگرمیوں کا آغاز 52 1
57 سرگودھا، جوہر آباد، قائد آباد، چنیوٹ اور چناب نگر کا سفر 53 1
58 ’’انسداد سود سیمینار‘‘ میں شرکت 54 1
59 قومی ایکشن پلان اور اس کا رد عمل 55 1
60 تحفظ ناموس رسالت ۔ آل پارٹیز کانفرنس لاہور 56 1
61 مجلس علماء اسلام پاکستان کا اجلاس 57 1
62 ششماہی تعطیلات کی سرگرمیاں 58 1
63 چنیوٹ میں تعزیتی ریفرنس 59 1
64 مذہبی رواداری اور علماء کی ذمہ داریاں 60 1
65 دستور پاکستان، تحفظ حرمین ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 61 1
66 کراچی میں تین دن 62 1
67 اندرون سندھ کا سفر 63 1
68 ملی و قومی مسائل ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 64 1
69 مری میں علمی و فکری نشستیں 65 1
70 یوم دفاع اور یوم تحفظ ختم نبوت کی تقریبات 66 1
71 حالات حاضرہ ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس 67 1
72 تحریک انسداد سود کا اجلاس 68 1
73 دینی جدوجہد کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم 69 1
74 سالانہ تبلیغی اجتماع رائے ونڈ ۲۰۱۵ء 70 1
75 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس ۔ حالات حاضرہ کا جائزہ 71 1
76 عالمی بین المذاہب کانفرنس اسلام آباد ۲۰۱۵ء 72 1
77 عالمی ختم نبوت کانفرنس جنوبی افریقہ ۲۰۱۵ء 73 1
78 حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں 74 1
79 ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور مذہبی طبقات کا رد عمل 75 1
80 تین دن مغربی روٹ پر 76 1
81 ترکی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ایک اجلاس 77 1
82 پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس 78 1
83 ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس 79 1
84 مذہبی منافرت کا سدباب ۔ قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس 80 1
85 تبلیغی سہ روزہ اور حضرت سندھیؒ کی یاد میں ایک مجلس 81 1
86 راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کا سفر 82 1
87 انسدادِ سود قومی کنونشن 83 1
88 سودی نظام کا شکنجہ اور ’’عذر لنگ‘‘ 84 1
89 جنوبی پنجاب کا سفر 85 1
90 فضلاء کرام کے چند تربیتی اجتماعات میں شرکت 86 1
Flag Counter