مکائد کے علاج کا ایک دائمی اور عالمگیر مطب اور دار الشفا تھا۔
لیکن مختلف سیاسی، اخلاقی و معاشی عوامل کے اثر اور مرور زمانہ سے حدیث کے تربیتی اور اخلاقی پہلو اور اس کے بنیادی طرف فہم و تفہیم، شرح و تدریس پر وہ طرز غالب آتا چلا گیا، جو اس وقت کے معاشرہ کے لئے زیادہ پرکشش، لوگوں کی نظر میں زیادہ وقعت پیدا کرنے والا اور مناصب اور عہدوں پر فائز ہونے میں مدد دینے والا تھا۔ حدیث کی تدریس و تفہیم اثبات مذاہب اور ان کے لئے دلائل فراہم کرنے اور سیرے تاریخی اور علمی بحثوں میں محدود ہوکر رہ گئی۔
لیکن اس کے باوجود حدیث و سیرت (قرآن مجید کے بعد) تہذیب اخلاق، تزکیۂ نفس، دلوں کے زنگ کی صفائی اور انسانی نفوس کے آئینہ کو صیقل کرنے کا سب سے مؤثر اور سہل العمل ذریعہ ہے۔
حدیث کی کتابوں میں جو مواد پایا جاتا ہے، وہ دو قسم کا ہے، ایک کا تعلق اعمال، ان کی شکلوں، ہئیتوں اور محسوس احکام جیسے قیام و قعود، رکوع و سجود، تلاوت و تسبیح، دعاؤں، اذکار و اوراد، دعوت و تبلیغ، جہاد و غزوات، صلح و جنگ میں دوست و دشمن کے ساتھ معاملہ اور دوسرے احکام و مسائل سے ہے اور دوسری قسم ان باطنی کیفیات سے متعلق ہے، جو ان اعمال کی ادائیگی کے ساتھ پائی جاتی تھیں، اور ان احکام کی اصل غرض و غایت ہیں، ان کیفیات کی تعبیر ہم اخلاص و احتساب، صبر و توکل، زہد و استغناٰ، ایثار و سخاوت، ادب و حیاء، خشوع و خضوع، انابت و تضرع، دعا کے وقت دل شکستگی، دنیا پر آخرت کو ترجیح، رضائے الٰہی اور دیدار کا شوق، اعتدال فطرت، سلامتی ذوق، مخلوق پر رحمت و شفقت، کمزروں کے ساتھ ہمدردی