تحفہ تراویح |
سم اللہ |
جاتا اور پھٹ جاتا ،یعنی قرآن فی نفسہ ایسا مؤثر اور قوی الاثر ہے کہ پہاڑ بھی متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا ، مگر اس قرآن کا اثر وہی لوگ قبول کرتے ہیں جن کے سر میں سونچنے والا دماغ اور سینہ میں سمجھنے والا دل اور پیشانی میں دیکھنے والی آنکھیں موجود ہوں جس طرح روشنی میں صرف وہ آنکھیں دیکھتی ہیں جن میں بینائی ہوں اگر آنکھ ہی بینا نہ ہو تو آفتاب کی روشنی بھی چراغ راہ نہیں بن سکتی ۔جامعہ اکل کوا بستی بستی جنگل جنگل صدا لگاتا اور یہ یقین دلاتا ہے کہ ’’لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہٖ الْاُمۃِ الَّا بِمَا صَلُحَ بہ اَوَّلُھُمَا ‘‘یعنی اس امت کے اول طبقہ کی اصلاح جس چیز سے ہوئی تھی اسی سے اس امت کے آخری طبقے کی اصلاح ہو سکتی ہے ،اور وہ چیز ہے (قرآن مجید)جاہلیت کے شر الناس اسی قرآن سے خیر الناس ہوئے ،جاہلیت کے گمراہ اسی مقدس کلام کی بدولت دنیا کے ہادی اور رہنما بنے، اور درندگی کی پستی میں گرے ہوئے اسی قرآن کے طفیل میں انسانیت کے بلند ترین مقام پر متمکن ہوئے ،مختصر یہ ہے کہ اسی کتاب عزیز سے وابستہ ہوکر جہنمی سے جنتی بن گئے ،صحابۂ کرام کے کتب خانۂ اول میں قرآن ہی قرآن تھا انہوں نے اسی جبل متین کو مضبوطی سے تھام کر بلندی کے تمام مدارج طے کئے ،ان کے رگ وپے میں قرآن ہی کی ہوا بھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ بلند وبالا تھے، دنیا کی قوموں نے ان کو دبانا چاہا ،زمین پر پٹخنا چاہا ، مگر جتنا پٹختے گئے صحابۂ کرام ؓ اتنا ہی اوپر کو اٹھے،اور نہ صرف خود اٹھے بلکہ دنیا کو بھی بلند کر دیا،تاریخ شاہد ہے کہ قرآن نے جو ہوا اور شوکت مسلمانوں میں بھری تھی جب تک وہ بھری رہی مسلم قوم بلند وبالا رہی لیکن جب خواہشات نفس کی سوئی اس ہوا بھری گیند میں گھس گئی تو پھس سے ہوا نکل گئی ، اب اس گیند میں اٹھنے کی سکت نہیں رہی جہاںڈال دی جاتی ہے وہیں پھنسی پڑی رہ جاتی ہے ،ضرورت ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور اس کے مواعظ واحکام سے عوام کو باخبر بنایا جائے تا کہ دنیا میں پھر ایک انقلابی اور صالح معاشرہ پیدا ہو ،مقام مسرت ہے کہ جامعہ کے استاذ تفسیر وحدیث وفقہ مولانا عبد الرحیم فلا حی ؔ نے اس سلسلہ میں نیا قدم اٹھایا ہے، جو در حقیقت جامعہ اکل کوا کی مختلف الانواع خدمات میں سے بہترین خدمت ہے موصوف