ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
کے لحاظ سے ہوتی ہے اس لحاظ سے اللہ کو رَحْمٰنُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ رَحِیْمُ الدُّنْیَا کہتے ہیں کیونکہ آخرت کی تمام نعمتیں بیش قیمت ہیں اور دُنیا کی بعض نعمتیں حقیر ہیں اور بعض جلیل القدر ہیں چونکہ لفظ رحمن اعلام کی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے لفظ رحیم پر مقدم رکھا گیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ رحمت کو تقدمِ زبانی حاصل ہے اور عموم رحمت ِ دُنیا میں مقدم ہے۔ کیا بسم اللہ اِس اُمت کی خصوصیت ہے یا پہلی اُمتوں کو بھی عطا ہوئی تھی ؟ یہ کہ بسم اللہ شریف اِس اُمت کے خواص میںسے ہے یاپہلی اُمتوں کوبھی عطا ہوئی ہے ؟ حضرت ابو بکر التولنی نے اِس پر اِجماع نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کتاب کو بسم اللہ شریف سے شروع کیا ہے اور علامہ سیوطی سے نقل کیا گیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاتِحَةُ کُلِّ کِتَابٍ یعنی بسم اللہ شریف تمام کتابوں کی ابتداء ہے چنانچہ ایک حدیث شریف سے بھی اِس کا ثبوت باہم پہنچتا ہے وہ یہ کہ : رَوَی الثَّعْلَبِیُّ بِاِسْنَادِہ عَنْ اَبِیْ بُرْدَةَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اَلَا اُخْبِرُکَ بِاٰیَةٍ لَمْ تَنْزِلْ عَلٰی اَحَدٍ بَعْدَ سُلَیْمَانَ بِنْ دَاودَ غَیْرِیْ فَقُلْتُ بَلٰی قَالَ بِاَیِّ شَیْ ئٍ تَسْتَفْتِحُ الْقُرْآنَ اِذَا افْتَحْتَ الصَّلٰوةَ فَقُلْتُ بِبِسْمِ اللّٰہِ قَالَ ھِیَ ھِیَ ۔ '' حضرت ابوبردة رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تجھے ایسی آیت نہ بتادُوں جو سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے بعد میرے سوا کسی نبی پر نازل نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا ضرور فرمائیے آپ نے فرمایا بتاؤ جب نماز پڑھتے ہو تو قرآنِ مجید کہاں سے شروع کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بسم اللہ سے ۔ فرمایا یہی ہے یہی ہے۔ '' اس سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ اِس اُمت کی خصوصیت نہیں ہے اور پہلی اُمتوں کو بھی عطا ہوئی تھی مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ بسم اللہ شریف اِس اُمت کی خصوصیت ہے سابقہ اُمتوں کو عطا نہیں ہوئی، دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام شروع میں والا ناموں میں بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھا کرتے تھے یہاں تک کہ (بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرھَا وَمُرْسٰھَا اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْر رَّحِیْم)کا نزول ہوا تو پھر آنحضرت ۖ