ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
باجے بھی بجتے ہیں گانا بھی ہوتا ہے، رشتہ داروں کو جوڑے دیے جاتے ہیں ،دوستوں کو ہدیے اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں،ان باتوں کو حرام مکروہ تحریمی اور گناہ کہا جاتا ہے مگر بدعت نہیں کہاجاتا کیونکہ اِن کو دُنیا کا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے، خود کرنے والے سمجھتے ہیں اور پوچھا جائے تو یہی کہتے ہیں کہ ناک اُونچی رکھنے کی باتیں ہیں نمائش اور ٹھاٹھ ہے، اللہ معاف کرے اِن فضولیات کودین کا کام کوئی نہیں سمجھتا۔ (3) آنحضرت ۖ کے مزارِ مبارک پر حاضر ہو کر مجلس جماؤ چراغاں کرو چادر چڑھاؤ میلہ لگاؤ یا عرس کرو ،اِسی طرح کسی صحابی یا کسی ولی شیخ یا پیر کے مزار پر کوئی ایسا کام کرو ،لا محالہ اُس کو دین کا کام سمجھا جائے گا اور ثواب تبرک اور دین کا کام ہی سمجھ کر اِن کو کیا جاتا ہے پس اگر دین میں اِس کو کرنے کی ہدایت نہیں ہے اور آپ نے دل کے شوق سے یہ کام کر لیا ہے تو اِس کو بدعت کہا جائے گا کیونکہ یہ دین میں ایجاد ہے۔ اس طرح کی باتیں پہلی اُمتوں میں بھی ہوتی رہی ہیں آنحضرت ۖ نے اِن کو حرام قرار دیا اور کرنے والوں کے متعلق نہایت سخت الفاظ فرمائے ہیں مثلاً (الف) مرض الوفات کا واقعہ ہے جس کو سیّدہ عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان فرمایا ہے کہ سیّد الکونین محبوب رب العالمین ۖ کو بخار بہت تیز تھا وہ گلیم مبارک ١ جو زیب ِ تن تھا اُس کو آپ چہرہ انور پر ڈال لیتے تھے اور جب گھبراہٹ ہوتی تو ہٹا دیتے تھے اِسی حالت میں آپ نے فرمایا : لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَ النَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ ، یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوْا ۔ (بخاری شریف کتاب الصلاة رقم الحدیث ٤٣٥) '' خدا لعنت کرے یہود اور نصاریٰ پر،انہوں نے بنا لیا اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں، آپ کا منشاء یہ تھا کہ مسلمان ایسی حرکتوں سے باز رہیں۔ '' حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : لَوْلَا ذٰلِکَ لَأُبْرَزَ قَبْرُہ خَشِیَ اَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِدًا۔ ٢ ------------------------------١ مبارک کملی ٢ بخاری شریف کتاب المغازی رقم الحدیث ٤٤٤١