ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
پتہ ہونا چاہیے کہ ) میں اَشراف زادہ ہوں۔ حضرت اَنس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے اُس مصری سے فرمایا بیٹھ جا اِس سے زیادہ کچھ نہیں فرمایا پھر آپ نے (اُسی وقت) عمرو بن عاص کو خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ : ''جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو تم فورًا میرے پاس چلے آنا اور اپنے ساتھ اپنے بیٹے محمد کو بھی لیتے آنا۔'' حضرت اَنس فرماتے ہیں کہ ( جب عمرو کو وہ خط مِلا اور آپ نے اُسے پڑھا تو) آپ نے بیٹے کو بلا کر پوچھا : کہیں تم نے کوئی نیا کام تو نہیں کر ڈالا یا کوئی جرم تو تم سے سرزد نہیں ہوا ؟ وہ بولا کہ نہیں (ایسا کچھ نہیں ہوا) حضرت عمرو کہنے لگے پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمر نے خاص طور پر تمہارے بارے میں لکھا ہے کہ اُسے لے کر آنا۔ اَلغرض حضرت عمرو بن عاص حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو گئے ،حضرت اَنس فرماتے ہیں واللہ میں اُس وقت حضرت عمر کی خدمت میں موجود تھا جب ہم حضرت عمرو سے ملے جوصرف لُنگی اور چادر میں ملبوس آئے تھے ،ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ (کو دیکھا کہ وہ) اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ کہیں سے اِن کا بیٹا محمد نظر آجائے، دیکھا کہ وہ باپ کے پیچھے بیٹھا ہے، آپ نے دریافت فرمایا مصری کہاں ہے ؟ وہ بولا کہ میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا : یہ دُرّہ لے اور اِس اَشراف زادے کو مار، اِس اَشراف زادے کو مار ۔حضرت اَنس فرماتے ہیں کہ اُس نے اِس قدر مارا کہ اُسے لہو لہان کردیا ۔حضرت عمر نے (محمد بن عمرو سے) فرمایا (اپنے باپ) عمرو کے بل پر کوڑے کھا، اللہ کی قسم اِس (مصری) نے تجھے جو یہ کوڑے لگائے ہیں یہ تیرے باپ کے اِقتدار کی بدولت ہی لگا ئے ہیں (یعنی نہ تیرے باپ کو اِقتدار ملتا نہ تجھے اِتنی جرأت ہوتی ،نہ یہ کوڑے لگتے) وہ مصری بولا اَمیر المومنین ! جس نے مجھے مارا تھا میں نے اُسے(بدلے میں) مار لیا۔ حضرت