ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
قسم و صنف کے لوگوں نے اپنی الگ الگ جتھہ بندی کرکے اپنے اپنے مفادات کی جنگ شروع کر رکھی ہے ۔اِن میں سے زیادہ خطرناک فرقہ واریت کی پہلی چار قسمیں ہیں کیونکہ صنفی فرقہ واریت کے نتیجہ میں اپنی گروہی مفادات کی خاطر زیادہ سے زیادہ اِحتجاج، ہڑتال ، جلسے جلوس ہوجا ئیں گے اور مذہبی فرقہ واریت کے نتیجہ میں جلسے جلوس اِحتجاج ہڑتال کے علاوہ جدا مساجد و مدارس بن جائیں گے، ایک دُوسرے کے خلاف جلسے کر لیں گے لیکن فرقہ واریت کی پہلی چا رقسمیں تو اِتنی خطرناک ہیں کہ اِن سے تو ملکوں کے نقشے اور ملکوںکے جغرافیے بدل جاتے ہیں ۔پاکستان کا جغرافیہ بدل گیا جو کبھی مغربی پاکستان ہوتاتھا اَب وہی کُل پاکستان بن گیا جبکہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا جس میںبلا شبہہ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ،نوے ہزار فوج دُشمن کی قید میں چلی گئی اور پوری دُنیا کے سامنے اِس سیاسی ،لسانی ،وطنی،قومی فرقہ واریت نے پاکستانی قوم کو ذلیل اور ُرسوا کر دیا اور سر شرم سے جُھک گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان جیسے لوگ سیاسی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑ ھ گئے، کتنے گولیوں کے نشانہ بن گئے، کتنی عزتیں پامال ہوئیں،کتنے جانی و مالی نقصانات ہوئے اور کتنے سیاسی حریف ہیں جو اِنتقام کا نشانہ بنے اور کتنے سیاسی حریف ہیں جو بے قصور ہونے کے باوجود جیلوں میں پڑے ہیں اور ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور محض اپنے سیاسی دُشمنوں سے اِنتقام لینے کے لیے کتنے جُھوٹے ڈرامے رَچائے جاتے ہیں اورجُھوٹی کہانیاں بنائی جاتی ہیں لیکن حکومت اِس خطرناک فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے حکومتی وسائل اِستعمال نہیںکرتی ۔ ایک مذہبی فرقہ واریت ہی ہے جو اِن کو نظر آتی ہے وہ اِسی کی مذمت کرتی ہیں اِسی کو ختم کرنے کے پروگرام بناتی ہیں اِن کو تمام برائیاں اِسی کے اِرد گرد گھومتی نظر آتی ہیں، کیا اِن کو فرقہ واریت کی مکروہ ترین اور خطر ناک ترین قسموں کے مہلک تباہ کن نتائجِ بد نظر نہیں آتے ۔ اَصل بات یہ ہے کہ دین دُشمن عناصر کی مدت سے کوشش ہے کہ علمائِ اِسلام اور دین کے قلعے یعنی اِسلامی مدارس کو مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کے حوالے سے اِتنا بدنام کر دیا جائے کہ عوام الناس مدارسِ اِسلامیہ اور علمائِ اِسلام سے اِتنے بد ظن ہوجائیںاور مدارس اور اہلِ مدارس سے