ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
ہی مطالعہ کر لیا کرتے پس جب وہ صاحب لِسان لوگ اُ ستاذ کے محتاج ہیں تو آج کل کے یہ غیر زبان والے اُ ستاذ سے کیسے مستغنی ہو گئے ۔ تیسری بات یہ کہ کتاب و سنت اور علمِ دین کی خصوصیت کیوں ؟ بغیر تعلیم و تعلم کے اور بغیر اُستاذ کے ڈاکٹری ،اِنجینئر نگ ،سائنس ،وغیرہ علوم میں محض مطالعہ پر اِکتفا کیوں نہیں کر لیا جاتا جبکہ اِن میں سے ہر علم و فن میں اُردو کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جو قرآن وحدیث کے تراجم کے مقابلہ میں مفصل اور واضح ہیں ۔لیکن اِن علوم میں تو حالت یہ ہے کہ دُوسرے اُستاذ بنائے جاتے ہیں یعنی سکول ، کالج کے اُستاذ علیحدہ اور ٹیوشن پڑھانے والے علیحدہ۔ چوتھی بات یہ کہ پورا دین سمجھنے کے لیے محض قرآن اور صحاحِ ستہ کا ترجمہ ناکافی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے غیر مقلد وں کے ایک جید عالم ِدین اور مناظر پر شرط رکھی کہ وہ پورے دین کے مسائل نہیں صرف نماز کا مکمل طریقہ اور نماز کے ضروری مسائل صرف صحاحِ ستہ سے سکھا دیں، میں اہلِ حدیث مذہب قبول کر لوں گا۔وہ اِس پر آمادہ نہ ہوئے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ قرآن اور صحاحِ ستہ کا اُردو ترجمہ دین سمجھنے کے لیے کافی نہیں ، اِس کے لیے صحاحِ ستہ کے علاوہ اَحادیث و آثار کا بہت ذخیرہ ہے جو ضروری ہے، وہ نہ صحاحِ ستہ میں ہے نہ حدیث کی دُوسری مروجہ کتب میں ہے مثلاً اِمام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لاکھ صحیح اَحادیث میں سے صحیح بخاری کا اِنتخاب کیا ہے اور صحیح بخاری میں تکرار ختم کرکے کل اَحادیث کی تعداد چار ہزار ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چھیانوے ہزار صحیح اَحادیث کہاں ہیں ؟ اِمام اَحمد بن حنبل کو چھ لاکھ صحیح اَحادیث یاد تھیں لیکن مسنداَحمد میں اِن میں سے چند ہزار ہیں باقی حدیثیں کہاں ہیں ؟ کتاب الآثار کا چالیس ہزار اَحادیث ِصحیحہ سے اِنتخاب ہے باقی اَحادیث کہاں ہیں ؟ جبکہ مجتہدین کے سامنے وہ سب اَحادیث و آثار تھے اور کوئی بھی صاحب علم اپنے پورے علم کو کتاب میں منتقل کر بھی نہیں سکتا جو کچھ اُس کی کتاب میں ہو گا وہ اُس کے علم کا کچھ ہی حصہ ہو گا۔ جب یہ صورتِ حال ہے تو دین سمجھنے کے لیے صرف قرآن کا اُردو ترجمہ اور صحاحِ ستہ کے اُردو تراجم کیونکر کافی ہو سکتے ہیں ؟ جبکہ صحاحِ ستہ کی اَحادیث ملاکرچھ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہیں۔ اَصل