ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
لیکن فی الحال ہمارے سامنے اَصل بات حال میں دَرپیش مشکلات و مسائل پر غور کرکے اُن کا حل کرنے، ملت ِ اِسلامیہ کی راہنمائی اور اُس کو عزت و توقیر کا مقام دِلانے کی ہے۔ ہمارا یہ شدید اِحساس ہے کہ اگر ہم نے سنجیدگی سے حال کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی تو ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل غیر یقینی کی زَد میں آجائے گا اور ظاہر ہے کہ غیر یقینی کے حالات میں اُن سے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی اُمید نہیں کی جاسکتی ہے۔ نئی نسلوں کے لیے عزم و اُمید کے ساتھ صحیح اور محفوظ مستقبل کی سمت میں آگے بڑھنے کی بات ہم اُس وقت کرنے میں حق بجانب ہوں گے جبکہ اُنہیں اپنی پہچان ہوگی اور خبر بھی ہونا چاہیے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور ہمارے وہ رہنما کون تھے جن کی مستحکم اور قابلِ تقلید فکرو کردار کی روشنی ماضی سے حال تک پہنچ رہی ہے۔ اگر صحیح معنی میں دیکھا جائے تو چاہے بزرگ ہوں یانئی نسل، سب کا اَپنا اَپنا ہی حال ہوتا ہے اوراُسی میں رہتے اور جیتے ہیں اِس کے مدِّ نظر ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ ہم اپنے حال کے تحفظ و بقا کا سامان کیسے کر سکتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں ہمارا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ دانشورانِ ملک و ملَّت : یقینا آپ بھی اِس سوال پر غورو فکر کرتے رہے ہوں گے۔ اِس کا ثبوت حضرت شیخ الہند کی تحریک سے منسلک اِس اَمن عالم کانفرنس میں تمام تر مصروفیات اور مشقتوں کے باوجود شرکت اور اِس کے موضوعات و عنوانات پر تبادلہ ٔ خیالات اور ایک دُوسرے کی باتیں سننے اور سنانے کے لیے جمع ہونا ہے، اِس کے لیے ہم آپ سب کو دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد کے ساتھ پر تپاک اِستقبال کرتے ہیں۔ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نہ توآپ کے لیے شایانِ شان قیام و طعام کا اِنتظام کر سکے ہیں اور نہ ہی خیر مقدم بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وقت نے ایسی صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ ہم نہ صحیح معنی میں میزبانی کے لائق رہ گئے ہیں نہ ہی مہمانی کے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم سب بیک وقت ایک دُوسرے کے لیے میزبان اور مہمان دونوں ہو کر حوصلہ اَفزائی اور دَرد باٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اِس باہمی