ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
غیر مذاہب اور اَقلیتوں کے حقوق کی رعایت کے سلسلے میں اِسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ غلط فہمیاں عملاً پیداکی گئی ہیں۔ بہت سے ممالک جیسے ہندوستان میں مسلمان اَقلیت میں ہیں۔ اَقلیت کا مسئلہ کسی ایک مذہبی اَکائی کا نہیں ہے بلکہ یہ عالمی نوعیت کا مسئلہ ہے کوئی کہیں اَقلیت میں ہے کوئی کہیں، ہندوستانی مسلمان آئین ِ ہند کے تحت بحیثیت اَقلیت کے اپنے حقوق و اِختیارات کے حصول کے لیے برابر جدو جہد کرتے رہے ہیں۔ اگرعالمی طور پر اَقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور رعایت کے سلسلے میں ماحول تیار ہوجاتا ہے تو سب جگہوں کی اَقلیتوں کے لیے جدوجہد اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی راہ آسان ہوجائے گی۔ (٤) پڑوسی اور خصوصًا غیر مسلم پڑوسی کے حقوق کی رعایت : سماج میں اَمن کے قیام اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں پڑوسی خصوصًا غیر مسلم پڑوسی کے حقوق کی پاسداری و رعایت بھی اہم کردار اَدا کرتی ہے۔ اِسلامی شریعت میں ہر قسم کے پڑوسی کا خیال رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ ایسا لگتا تھا کہ پڑوسی کو وراثت میں شامل کردیا جائے گا۔ پڑوسی کا دائرہ بہت وسیع ہے جس طرح پڑوسی، گھر، محلہ اور سفرکا ہوتا ہے اِسی طرح شہر، ضلع، ریاست اور ملک کے لحاظ سے بھی پڑوسی ہوتا ہے۔ اگر شریعت کے مطابق تمام قسم کے پڑوسیوں سے بہترتعلقات بنا کر اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے توسماج سے فساد، تخریب کاری اور بداَمنی ختم ہو سکتی ہے۔ آج ایک دُوسرے پڑوسی ممالک میں بہتر تعلقات نہ ہونے کے سبب فوج اور اَسلحہ جات کی خریداری پر حد سے زیادہ مالی صرفہ آرہا ہے اور نتیجے میں بہت سے اِقتصادی، تعلیمی و تعمیری کا م مطلوبہ سطح پر نہیں ہوپاتے ہیں۔ پڑوسیوں کے معاملہ میں مسلم، غیر مسلم کے درمیان شرعی و اَخلاقی لحاظ سے اِمتیاز کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ پڑوسی ہونے اور اِنسانیت کے ناتے بہتر تعلقات اور حسن ِ سلوک ضروری ہے۔ فرقہ وارانہ فساداور فرقہ پرستی، باہمی تعلقات کی خرابی اور نفرت و تعصب سے پیدا اور فروغ پاتی