ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
لیکن یہ سب قرآنِ پاک کو اِسلام کو مسخ کرنا ہے۔ کیونکہ قرآنِ پاک میں آیا ہے (اِتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَوا ) اللہ سے ڈرواور جو کچھ بچا ہے سود وہ چھوڑ دو ( اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ) اگر تم مومن ہو، تو کیونکہ ہر اِنسان یہ سمجھتا تھا سود والا کہ سود کی جو رقم ہو ئی ہے وہ ہوگئی میری ،اَب وصول کرنی باقی ہے ( فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوْا ) اگر تم (ہمارے) اِس کہنے پر نہیں چلو گے تو پھر اللہ اور رسول کی طرف سے جنگ ہے ( فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ) یہ سزا جو ہے اِتنے سخت کلمات کسی اور جرم کے بارے میں نہیں ہیں جتنے سود کے بارے میں ہیں اور پھر آتا ہے ( فَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ) اگر تم توبہ کر لو گے تو جو تمہارا مال ہے بس وہ تمہارا حق ہے گویا سود یا سود دَر سود دونوں ختم ( رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ) رأس المال جیسے رأس ،رأس یہاں بھی بولتے ہیں وہ جو عربی والا '' رأس ''ہے وہاں سے چلا ہے یہ لفظ اور (لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ) نہ تم زیادتی کرو ظلم کرو کسی پر ،نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ سود کے بجائے قرض اور اَٹھارہ گنا ثواب : اِس کے بجائے قرض بتا دیا شریعت نے کہ قرض دے سکتے ہیں اَب قرض دینے کے بعد آدمی کو بہت ہی تکلیف ہوتی ہے قرض تو دے دیا اور خود کو ضرورت پڑگئی پھر ؟ پھر وہ تقاضا کرتا ہے یا قرض خواہ نے قرض لے لیا اور اَب دے نہیں سکتا آج وعدہ کیا ،کل کا کیا، پھر کیا اگلے مہینے کا ،پھر تین مہینے کا، پھر گئے پھر نہیں ،پھر گئے پھر نہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے تو اُس پر ثواب رکھ دیا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ نے تفسیر ِ عزیزی میں لکھا ہے قرض کی فضیلت میں کہ اِس پر اَٹھارہ گنا ثواب ہے۔ اگر آپ وہ پیسے کسی کو ویسے ہدیةً دے دیں اِمداد میں دے دیں تو بھی ثواب ہے جس نیت سے دے دیں ثواب ہے اُس میں لیکن قرض دو گے تو یہ اَٹھارہ گنا ہے، تو یہ اَٹھارہ گنا ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اِنسان کو قرض دینے کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت پر وصول ہوجائے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ دیر لگ جائے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت ہی مشکل ہوجائے وصول ہونا