ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
کہ جوعبارت کاٹی جائے یابڑھائی جائے اُسے حاشیہ پر ظاہر کر دیا جائے کہ اَصل میں یوں تھا اور اَب عبارت یوں بنائی گئی ہے اور کوئی مضمون شرع کے خلاف نہ ہو یا یہ کہ آپ اپنی عبارت میں کوئی ایسی کتاب لکھ دیجیے، میں اپنے دوستوں کو ایک اِشتہار دے دُوں گا کہ وہ بہشتی زیور کو ترک کردیں اور یہ نئی کتاب جو اِس کے ہم مضمون ہے، بجائے اِس کے لے لیں یا پھر دُوسرے علماء کے رسائل کا اِنتخاب کرلیں مگر اِسی شرط سے کہ اُن میں عبادات ،معاملات، تربیت و ترغیب اور اَخلاق و تہذیب کے مضامین اور معاشرت کی ضروری باتیں بھی ہوں۔ (وعظ اِصلاح الیتامی ملحقہ حقوق و فرائض ص ٤٠٢) دُنیاوی فنون اور دَستکاری کی تعلیم : یہ علوم جن کا لقب تعلیم جدید ہے عورتوں کے لیے ہر گز زیبا نہیں اَلبتہ دُنیاوی فنون میں سے بقدر ِضرورت لکھنا اور حساب اور کسی قسم کی دستکاری، یہ مناسب ہے بلکہ آج کل ضروری ہے کہ اَگر کسی وقت کوئی سر پرست نہ رہے تو عفت کے ساتھ چار پیسے توکماسکے۔ (اِصلاحِ اِنقلاب ج ١ ص ٢٧٠) لڑکیوں کو اَنگریزی اور جدید تعلیم : تعلیم سے میری مراد ایم اے ، بی اے ہے ، یہ ایم اے بن کر کیا کریں گی ؟ یہ میمیں ہیں اور بی اے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ'' بی'' تو خود ہیں'' اے'' بڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ آج کل یہ بھی ایک رواج چلا ہے کہ عورتوں کو بھی ایم اے، بی اے بناتے ہیں، کیا اُن کو نوکری کرنا ہے جو اِتنی بڑی ڈگریاں حاصل کی جائیں۔ (اَلتبلیغ ج ٧ ص ٢٦) جدید تعلیم کا ضرر : یہ جدید تعلیم تعلیم نہیں بلکہ تجہیل ہے اور عورتوں کے لیے تو نہایت ہی مضر ہے ،یہ تعلیم تو جہل سے بھی بد تر ہے۔ جہل میں اِتنی خرابیاں نہیں جتنی اِس تعلیم میں ہیں۔ عورتوں کے لیے تعلیم کا وقت بچپن کا وقت ہے مگر آج کل شہروں میں بچپن ہی سے لڑکیوں کو نئی تعلیم دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس تعلیم کے آثار و نتائج اُن کے رَگ و پے میں سرایت