ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
یعنی کسی سے نرم لہجہ سے بات نہ کرو۔ شریعت فطرت کے بالکل موافق ہے مگر اَفسوس کہ آج کل طبعی اَخلاق سے بُعد (دُوری) ہو گیا ہے اور جو باتیں بری سمجھی جاتی تھیں وہ اچھی سمجھی جانے لگیں حتی کہ اِس قسم کے مضامین اور ایسے خیالات و جذبات جن سے خوامخواہ میلان پیدا ہو، آج کل ہنر سمجھے جانے لگے ہیں اِس سے بہت ہی پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ اَثر اِس نئی تعلیم کا ہے اللہ محفوظ رکھے۔ (اَلتبلیغ ٧٣، ٧٩) یورپ اور اَمریکہ والوں کا اِقرار : آج کل یورپ اور اَمریکہ سے زیادہ عورتوں کی تعلیم میں کوئی قوم آگے نہیں مگریورپ تو عورتوں کی تعلیم سے پریشان ہو گیا کیونکہ وہ اَب مقابلہ کرتیں ہیں اور مردوں کے برابر حقوق طلب کرتی ہیں، اَب اُن کا بھی فتوی یہی ہے کہ عورتوں کو دُ نیا کی تعلیم نہ دینی چاہیے۔ (ایسی جدید تعلیم یافتہ عورتوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ) مردوں کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ عورتوں سے خدمت لے سکیں۔ روز خُلع وطلاق کا بازار گرم رہتا ہے اور عورتیں ہر دِن عدالت پر کھڑی رہتی ہیں پھر چاہے خطا عورت ہی کی ہو مگر فیصلہ اَکثر مرد کے خلاف ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر حکام عورتوں ہی کو مظلوم سمجھتے ہیں۔ (اَلتبلیغ ١٤/ ٢٢٨) عورتوں کو منطِق و فلسفہ پڑھانا : ایک جنٹلمین صاحب نے اپنے تجربہ کی بنا ء پر کہا تھا کہ میں نے یہ تجویز پا س کی ہے کہ عورتوں کو جامع معقولات نہیں بنانا چاہیے۔ معقولات (منطق و فلسفہ) تو صرف مردوں ہی کو پڑھنا چاہیے عورتوں کو صرف منقولات پڑھانا چاہیے( یعنی قرآن و حدیث وفقہ)۔ (اَلتبلیغ ج ٧ ص ٦٦ ) مجھ سے ایک جنٹلمین صاحب ملے جو علومِ عربیہ میں بڑے قابل تھے وہ کہتے تھے کہ میں گھر میں لڑکوں کو تو سب علوم پڑھاتا ہوں دینیات بھی اور فلسفہ بھی مگر لڑکیوں کو سوائے دینیات کے کچھ نہیں پڑھاتا کیونکہ عورتوں کی اِصلاح صرف علومِ دینیات پر اِکتفاء کرنے میں ہے علومِ زائدہ پڑھانے میں اُن کی سلامتی نہیں، تجربہ سے یہ زوائد اُن کے لیے مضر ثابت ہوئے۔ (اَلتبلیغ ١٧٠/١٤ )۔(جاری ہے)