ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
کرجاتے ہیں پھر دُوسری کوئی تعلیم اُن پر اَثر کرتی ہی نہیں۔ لڑکیوں کی مثال بالکل کچی نرم لکڑی کی سی ہے اِس کو جس صورت پر قائم کر کے خشک کرو گے تمام عمر ویسی ہی رہے گی۔ جب بچپن سے نئی تعلیم دی گئی، نئے اَخلاق سکھائے گئے ،نئی وضع ،نئی قطع، نیا طرز ِ معاشرت اِن کی نظروں میں رہا تووہ اِسی میں پختہ ہوگئیں، بڑی ہو کر اُن کی اِصلاح کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ (اَلتبلیغ ج ٧ ص ٨٠) بعض عورتیں بھی میموں کی تقلید کی حرص کرنے لگی ہیں چنانچہ سر پر ایک کنگھا لگاتی ہیں جس سے بال بکھرتے نہیں اور بال بھی اَنگریزی رکھتی ہیں مگر اَب سنا ہے کہ میمیں چُٹیا کاٹنے لگی ہیں بس تم بھی چٹیا کاٹنے لگو تو وہ لعنت کا کلمہ صادق آجائے گا جو عورتیں کوسنے کے وقت کہا کرتی ہیں کہ تیری ناک چٹیا کاٹوں گی۔ (اَلتبلیغ ج ١٤ ص ٢٢٠ و ج ٧ ص٦٥ ) جدید تعلیم بے حیائی کا دروازہ ہے : اَفسوس ہے کہ ایک فطری اچھی خصلت کو بگاڑا جا رہا ہے دیہات میں دیکھئے کہ بھنگن و چمارن سے بھی خطاب کیجئے تو وہ بھی منہ پھیر کر اَوّل تو اِشارے سے جواب دے گی مثلاً راستہ پوچھئے تو اُنگلی اُٹھا کربتائے گی اور اگر بولنا ہی پڑے تو بہت تھوڑے سے الفاظ میں مطلب اَدا کردے گی، نہ اُس میں اَلقاب ہوں گے نہ آداب ،نہ ضرورت سے زیادہ الفاظ ،نہ آواز نرم ہوگی بلکہ اِس طرح بولے گی جیسے کوئی زبردستی بات کرتا ہے ،دیہات والوں میں طبعی اَخلاق موجودہوتے ہیں اِنحراف کے اَسباب وہاں نہیں پائے جاتے ۔ حیا عورت کے لیے ایک طبعی اَمر ہے اورعورت کے لیے یہ طبعی بات ہے کہ غیرمردوں سے میل جول نہ کرے اور کوئی ایسی بات قول یا عمل میں اِختیار نہ کرے جس سے میل جول یا کشش پیدا ہو اور یہی شریعت کی تعلیم ہے۔ قرآنِ مجید کے اَندر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اَجنبی مردوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں جس سے نفرت پائی جائے نہ کہ محبت واُلفت ۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں ( فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ الخ )